Skip to content

اب تو اور ہی اعجاز دکھایا جائے

اب تو اور ہی اعجاز دکھایا جائے

آج کے اس پُر آشوب دور میں ہر انسان ایک انہونی خواہش دل میں پالے ہوئے ہے کہ اب کچھ ایسا معجزہ ہو ، ایسی تبدیلی آئے کہ دن میں رات کا احساس ختم ہو جائے ۔ ہر دور میں حالات انسان کو اس نہج پر لے آتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی معجزے کے انتظار میں خوش فہم رہنے لگتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی بھی اپنے اس شعر میں ایسے ہی کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

اب تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے
شام کے بعد بھی سورج نہ بجھایا جائے

ہمارا ملک بلکہ پوری دنیا جس صورتِ حال سے دوچار ہے اس کو دیکھتے ہوئے واقعی معجزہ ہی ہوگا اگر ہم ایسے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوں۔ بے روزگاری، دہشت گردی ، فرقہ واریت ، جنونیت ، کرپشن جیسی برائیوں کے گھپ اندھیروں میں دن اور رات کا فرق تو کرنا ہی مشکل تھا مگر اب لاک ڈاؤن نے حالات کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔ اس سب سے نجات اب ممکن ہی نظر نہیں آتی ۔ ہمارے چاروں طرف ان برائیوں کا ایسا اندھیرا پھیلا ہوا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتی ۔ زندگی سے محبت ، اپنائیت ، سچ ، درست ، اچھا، مثبت جیسے الفاظ کی بازگشت بھی سنائی نہیں دیتی ہم انتہائی بے یقینی کا شکار ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ زندگی اتنی آسانیوں کے باوجود بھی اسقدر الجھی ہوئی کیوں ہے؟ چھوٹے بڑوں کی غلطیاں اور عیب ڈھونڈتے ہیں۔ بڑے چھوٹوں سے نالاں ہیں۔ کسی کو کسی پر اعتبار ہے نا یقین ۔ کشمکش کے شکار یہ لوگ زندگی کے کسی مقصد کا تعین کرنے میں ناکام ہیں۔ یعنی مالی و جانی مشکلات نے کچھ اس طرح سے گھیر رکھا ہے کہ بعض اوقات اپنے ہی گھر میں آنے والوں سے انسان خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر:۔

اس قدر خوف زدہ ہیں مرے اس دور کے لوگ
گھر میں آئے ہوئے مہماں سے ڈرتے ہیں

اور ان حالات میں ہم لوگ ایک قائدِ اعظم یا ان کے جیسے کسی لیڈر کے منتظر ہیں جو آکر ان برائیوں کا قلع قمع کرے تو کرے مگر خود سے ان برائیوں اور مسائل کے خاتمے کے لیے وقت نہیں۔ ہم ان بزرگوں کے پیروکار ہیں جن کا ذکر ایک شاعر نے کچھ اس طرح کیا ہے۔

ہمارے بزرگ کیا کارہائے نمایاں کر گئے
نوکری کی ، پنشن لی اور مر گئے

اگر ہم دوسروں پر سوال اٹھانے کی بجائے اپنے آپ سے سوال کریں اور اس کا کوئی مثبت جواب بھی تلاش کر لیں تو بہت سے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک با سہولت زندگی تو جی رہے ہیں مگر اس میں سکون و راحت نہیں ہے اور ایک سہولت سے بھری زندگی میں سکون کا ہونا بھی ضروری ہےاور اس کے لیے کسی لیڈر کا منتظر ہونا بے وقوفی ہے ۔ آپ دوسروں پر منفی تبصرے اور تجزئیے کرنے کی بجائے اگر اپنی ذات کا تجزیہ کر لیں تو زندگی آسان ہو سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *