وہ سردیوں کی ایک شام تھی جب وہ میرے ہم کلام تھی ، وہ جب بھی بات کرتی تھی تو اس کی باتوں کی شروعات اور اختتام وفا پہ ہی ہوتا تھا۔ اس دن جب اس نے وفا کا نام لیا تو ایسا لگا جیسے اس کے نزدیک وفا کسی ترازو کا نام ہے ، یا شاید کسی دو رخے سکے کا نام ہے کہ جس کو اچھال کہ وہ محبت ہونے یا نہ ہونے کا ثبوت دے سکتی تھی۔ اس کو لگتا تھا کہ محبت اور وفا لازم و ملزوم ہیں۔
اور اس کی یہی بات میری رگوں میں اتر جاتی تھی اور میرا دِل کرتا تھا کہ میں اس کی محبت اور وفا کی مثالیں ساری دنیا کو چیخ چیخ کہ بتاؤں اور سینہ تان کہ کہوں کہ لوگو۔۔۔۔! آؤ اور دیکھو ایسے ہوتی ہے محبت۔۔۔ اور ایسے ہوتے ہیں محبت کرنے والے” اور پھر ایک رات اس نے وفا کی کچھ یوں مثال دی ، کہ میں نے سنا ہے کہ وفا کرنے والوں کے ہاتھ گرم ہوتے ہیں۔ اس کی بات سن کہ اپنے ہاتھوں کی گرمائش معلوم کرنے کے لیے میں نے تجسس میں ہاتھ اس کے ہاتھوں کی طرف بڑھایا تو وہ جھٹ سے اپنا وجود جھٹک کر بولی جس وفا میں اگر مگر ہو وہ وفا نہیں ہوتی ، جو وفا اپنے ہی دائرہ اعتبار سے باہر ہو وہ کبھی بھی کسی کا اعتماد نہیں جیت سکتی۔ پیار تو بغیر شک و شبہ والا رشتہ ہے اور جس محبت کے وجود میں شک ہو اس کا وجود بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے” اور جب وقت نے کروٹ لی تو وہ ہمیشہ کی طرح وفاداروں کی صف اول کا حصہ بنی۔
جب دو اور بائیس برس کی محبت میں سے انتخاب کرنے کا موقع آیا تب مجھے روتا چھوڑ کہ وہ اپنے باپ کا شملہ سر پہ اٹھائے روانہ ہوئی۔ تب اس کا جانے والا ہر قدم اس کا دیا ہوا سبق دہرا رہا تھا اور میں اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لئے دھندلائی ہوئی نظروں سے وفا کا سبق یاد کر رہا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کسی ایک انسان کی خاطر ہزاروں انسانوں کو رلانا محبت نہیں۔ محبت تو مسکراہٹیں بکھیرنا سکھاتی ہے ، یہ تو دلوں کو جوڑنے کا نام ہے۔ محبت وہ ہے جو وصل اور جدائی سے بے نیاز ہو۔ محبت وہ ہے جو سرد اور گرم ہاتھوں سے نہیں نرم دلوں سے ناپی جاتی ہو۔ جب وفاداروں کی بات آئے تو سب سے پہلے اپنے دودھ کی حلالی ہے میں جب ہوش میں آیا تو اس کا وجود میری نظروں سے اوجھل تھا لیکن اس کا دیا ہوا سبق مجھے اب سمجھ آ رہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ آج پھر لوگوں کو چیخ چیخ کہ بتاؤں کہ نبھانے والے ایسے نبھاتے ہیں جو ساتھ چھوڑ کر بھی ساتھ چلتے ہیں۔ مگر میرا وجود وہیں ساقط تھا۔ کیونکہ اس سبق کی مجھے سب سے زیادہ ضرورت تھی