یہ دنیا جب سے وجود میں آئی ہےاس میں نت نئی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جو کہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ بلاشبہ دنیا کے حالات ہی تبدیل نہیں ہوئے،بلکہ ہر دور کی ضروریات اور اس کے تقاضوں میں بھی تبدیلی آتی رھی۔اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہم پیدا ہونے کے بعدآہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں یہاں تک کہ بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر دنیا سے اس طرح رخصت ہو جاتے یہں، جیسے ان کا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو۔
اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم بچپن میں جو چیزیں کھاتے اور پہنتے ہیں،ساری زندگی وہی چیزیں ہماری خوراک نہیں رہتیں اورنہ ہی بجپن کا لباس ہم لڑکپن اور جوانی و بڑھاپے میں زیب تن کیے رکھتے ہیں،بلکہ قدوقامت میں اضافے کے ساتھ لباس بھی تبدیل ہوتا ھے اور بدن کی خوراک بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جاتی ھے۔یہی حال ہمارے مزاج اور سوچ کا بھی ہے ان بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے البتہ!جو چیز ہم میں صدیوں پہلے تھی اورتا قیامت رہے گی اور اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ھو گی ہو ھے ہمارا دین۔ کیونکہ یہ دین کسی فرد کی سوچ کا عکاس نہیں،بلکہ یہ تو اللہ پاک کا عطا کردہ ہےاور بندے تو محض اس دین کے داعی اور پیروکار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس دور میں بھی اس دین کی شمع کی روشنی کم ہوئی تو اللہ نے ایسے افراد پیدا کیے جو کہ نہ صرف دین کی بھجتی ہوئی شمع کے گرد سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے کھڑے ہوئے بلکہ انہوں نے مزید اتنی شمعیں روشن کردیں کےہرطرف اجالاہی اجالاہوگیا،چنانچہ انہوں نے نیکی کی دعوت کوعام کرنے کے لیے انہوں نے وعظ ونصیحت سے کام لیا۔بلاشبہ یہ طریقہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ھےاورانتہائی مؤثربھی ھے۔اسی کے متعلق حدیث پاک بھی ہےکہ بعض بیان جادو ہوتے ہیں-
اس حدیث کا مطلب ہے کہ بعض کلام لوگوں کے دل اپنی طرف ماءل کرنے میں اور لوگوں کو ھیران کردینے مٰٰیں جادوکا اثر رکھتے ہیں۔اور سننے والوں پر بھی جادو کی طرح اثرانداذ ہوتے ہیں۔آللہ ہم کو عمل کی توفیق عطا فرمائے( آمین)