تغیر زمان اور اسلام
تغیر زمان یعنی زمانے کا بدلنا،اج بشریت زندگی کے نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے.ایک طرف ترقی و پیشرفت اور بڑھتی ہوئی ثقافتی یلغار ہے اور دوسری طرف چند کوتاہ فکر لوگوں کی روشن فکری باعث بنی ہے کہ لوگوں کو اسلام سے دور کیا جائے۔ ہمارے ایجوکیشن سسٹم پر ایک اعتراض جو ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں کو یرغمال بنا رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام چودہ سو سال پہلے آیا ہے اور اس وقت انسان نے اتنی ترقی کا سفر طے نہیں کیا تھا۔
اب جبکہ زمانہ بدل چکا ہے اور وہ انسان جو کبھی پتھر کے دور میں تھا اب ایٹمی ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ اس وقت ممکن نہیں کہ چودہ سو سال پہلے کا اسلام بشریت کی ضرورت پوری کر سکے۔ میری نظر میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہماری قوم دانستہ یا نادانستہ شکار ہوتی جا رہی ہے۔ لہزااس حالت میں اسکا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ جو حضرات اسلام کو چھوڑ کر زمانے کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے حق میں ہیں۔ وہ بھی غلطی پر ہیں اور جو زمانے کے ساتھ چلنے کے مخالف ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں، کیونکہ زمانے کو انسان بناتا ہے، اور انسان ہی ایک ایسا موجود ہے جو چاہے تو زمانے کو اچھا بنا سکتا ہے یا چاہے تو برا پس یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کو زمانے کی اچھی چیزوں کی حمایت کرنی چاہئیے اور بری چیزوں کی مخالفت ۔ اسی ضمن میں ایک ایک سوال دیگر پیش آتا ہے کہ انسان کے پاس اچھی اور بری چیزوں کو پرکھنے کا معیار کیاہے؟ تو اس کے لئے بہترین معیار عقل ہے۔ عقل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کمال کی طرف جا سکتا ہے۔
اگر اسکا درست استعمال نہ ہو تو انسان انحراف اور اشتباہ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ چیز جاننا بہت ضروری ہے کہ جو چیز زمانے میں پیدا ہوئی ہے عقل کی پیداوار ہے یا کسی دوسری چیز کی مداخلت شامل ہے؟ بعض وقت ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز زمانے میں پیدا ہوئی ہے۔ سو فیصد علم و عقل کے تابع ہیں۔ لیکن بعض وقت لوگ علم زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مثلا علم فزکس سے بشر نے عکس برداری اور فیلم برداری کو کشف کیا ہے۔ جو واقعی انسانیت کی ایک خدمت ہے۔ لیکن ایک جگہ ایک ہوس پرست پیسے کا پجاری آدمی اٹھتا ہے اور اس وسیلے کو لوگوں کی جیبیں خالی کرنے اور اخلاق کو فاسد کرنے کا ذریعہ بناتا یے۔ تو یہاں پر علم کا حصول نہیں بلکہ شہوت پرستوں کی شہوت کا حصول کہینگے۔ جیسے امریکہ میں دانشمندوں کا ایک جشن منعقد کیاگیا جس میں سب کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ جب خود اس شخص کی باری آئی جس نے ایٹم ایجاد کیا تھا۔ اس نے کہا آپ اس شخص کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ جو ایٹم کی ایجاد کا سبب بنا۔ اس نے ایٹم کو بشریت کے فائدے اور قدرت کےلئے ایجاد کیا تھا۔ لیکن ھوس پرستوں نے اپنے فائدے کےلئے استعمال کیا اور کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس دور میں ہم رہ رہے ہیں۔
یہ عصر علم نہیں بلکہ عصر اسارت (قید) علم ہے۔ یعنی علم تو اپنا کام کر رہا ہے لیکن اس میں شہوت پرستوں کی شہوت بھی شامل ہے جو اپنی منفعت کےلئے اسکا منفی استعمال کرتے ہیں۔ لہذا آج کے دور میں اسی ایک طریقے سے اسلام کے ساتھ ہم آہنگ رہا جا سکتا ہے کہ زمانے کی مثبت پیشرفت کو قبول کریں اور منفی پیشرفت کا راستہ روکیں۔
(تحریراز:سید قمر نقوی)