حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ وسلم کا چچا زاد بھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا بھائی تھا ۔ان لوگوں کا خاندان سخاوت کرم شجاعت اور بہادری میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا اور غریبوں کی امداد بھی کرتے تھے ۔جب کافروں کی تکلیف سے بہت تنگ ہو گئے تو پہلے حبشے کا ہجرت کیا۔کفار اس کے پیچھے ادھر بھی چلے گئے ۔ادھر حضرت جعفر رضی اللہ نے نجاشی کے دربار میں اپنی صفائی پیش کی۔ادھر سے واپسی کے بعد مدینہ منورہ کا ہجرت کیا اور غزوہ موتہ میں شہید ہو گئے۔
جب حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے موت کا وقت قریب آگیا تواپنے بیٹوں عبداللہ عون اور محمد کو بلایا۔ان کے سروں پر ہاتھ پھیراتے ہوئے دعا فرمائیں ۔یہ سب اپنے باپ کی طرح تھے ۔لیکن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ میں سخاوت کا صفت بہت زیادہ تھا۔اس وجہ اس کا لقب قطب السخا تھا۔ سات سال کی عمر میں نبی علیہ السلام کے ہاتھ بیعت فرمائی ۔کسی نے عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو سفارشی بنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے جس کی وجہ سے اس کا کام ہو گیا ۔اس بندے نے انعام کے طور پر چالیس ہزار روپیہ عبداللہ کےپاس بھیج دئیے۔ عبداللہ نے واپس بھیجے کہ ہم اپنے نیکیاں کو نہیں بیچتے ہیں۔
ایک دفعہ نذرانے میں تین ہزار روپے آ گئے ۔اسی مجلس میں تقسیم کردیا ۔
ایک دفعہ ایک تاجر نے بہت شکرہ کو بازار لے کے ایا۔ مگر نہیں بیچا جا سکا ۔حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ نے سب خرید کے بندوں میں مفت تقسیم کیا ۔کسی قبیلے کا کوئی بھی مہمان آتا تو اس کے پاس کھانا کھاتا تھا ۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ایک جنگ میں شریک تھے ۔اپنے بیٹے عبداللہ سے وصیت فرمایا۔کہ آج میرا کو لگ رہا ہے کہ میں شہید ہو جاؤں گا۔آپ ہمارا قرض ادا کرو ۔یہ وصیت فرما کے اسی دن شہید ہو گئے ۔جب بیٹے نے حساب لگایا تو اس کے اوپر 27 لاکھ روپے کا قرض تھا ۔قرض بھی اس طرح جمع ہوا تھا کہ بہت امانت دار تھا جو بندہ اس کے پاس پیسہ جمع کرتا تھا تو آپ اس سے فرماتے تھے کہ میرا پاس اس کی جگہ نہیں ہے ۔ یہ آپ کے میرے اوپر قرضہ ہو گیا۔ جب بھی ضرورت ہو میرے سے لے لینا۔اس طرح اس مال کو صدقہ کر دیتا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ وصیت بھی فرمایا تھا جب بھی مشکل پیش آئے میرے مولا کو بولا دے ۔اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مولا کون ہے ۔میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کا مولا کون ہے ۔فرمانے لگا کہ اللہ تعالی ۔اسی طرح حضرت عبداللہ رضی اللہ رضی اللہ تعالی نے سارا قرض ادا کردیا ۔جب بھی کوئی مشکل کام پیش آتا میں بولتا کہ زبیر کا مولافلاں کام نہیں ہو رہا ہےتو فورا ہو جاتا۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن جعفررضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ میرے والد صاحب کے قرض کی فہرست میں آپ کی ذمے دس لاکھ روپیہ ہیں۔
اس کے بعد میرے کو پتہ چلا کہ میرے سے غلطی ہوگئی۔میں دوبارہ جا کے فرمایا یہ دس لاکھ روپے میرے والد کی ذمہ ہے ۔ آپ نے فرمایا میں نے معاف کر دیا۔ میں نے بولا معاف کرنا نہیں چاہتا ہوں تو آپ نے فرمایا جیسے بھی آپ کو آسان ہو دے دینا ۔میں نے بولا اس کے بدلے میں زمین لے لو۔ مال غنیمت میں بہت سے زمین ملا ہے ۔عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں نے اس کو ایک زمین دیا جو معمولی حیثیت کا تھا اس میں پانی بھی نہیں تھا آپ نے فورا قبول کر دیا۔
غلام سے فرمایا اس زمین پر جائے نماز بچھاؤ۔غلام جایۓنماز بچایا۔دو رکعت نماز پڑھا بہت دیر تک سجدے میں پڑا رہا ۔جب نماز سے فارغ ہو گیاتو غلام سے فرمایا کہ اس جگہ کو کھدوں۔جب غلام نے اس جگہ کو کھدا تو اس جگہ سے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔