اعجازِ قرآن

In اسلام
November 17, 2021
اعجازِ قرآن

’عِجز‘ کا مطلب کسی امر کی قدرت نہ رکھنا ہے ،جبکہ ’معجزہ‘ ایسے چیز کو کہتے ہیں کہ کوئی اس جیسی مثال نہ پیش کرسکے۔ معجزات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہ انبیاء کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ کے معجزات کا تذکرہ ہے ، مثلاً رسی کو سانپ بنا دینا یا مردے کو زندہ کردینا وغیرہ۔

یہ ان قوموں کے لئے دلیل کی حیثیت رکھتے تھے جن کے سامنے یہ پیش کیے گئے ۔اور چونکہ وہ لوگ ان معجزات کے مقابلہ کرنے سے قاصر رہے ،لہذا ان پر، ان کی طرف بھیجے گئے انبیاء پر ایمان لانا لازم ٹھہرا تھا۔ البتہ یہ تمام معجزات انہی قوموں کے دور تک محدود تھے۔آج ہمارے لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں سے آخر وہ کونسا معجزہ ہے جس کی بنا پر مسلمان اسلام پر ایمان لاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن ہی بذاتِ خود وہ معجزہ ہے جو اسلام کی حقانیت کے عقلی دلائل میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو یہ چیلنج کیا ہے کہ وہ قرآن جیسا کوئی کلام بنا لیں! وہ بھی پوری کتاب نہیں ، بلکہ فقط ایک سورت کی مثال ہی پیش کردیں!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
’’ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو‘‘سورۃ البقرۃ: 23

یہ چیلنج روز ِ قیامت تک باقی رہے گا ، مگرآج تک انسان اس کلام کی مثال پیش کرنے سے عاجز رہاہے کیونکہ یہ کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں! اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں پر قرآن نازل ہوا وہاں کے لوگ یعنی اہلِ عرب اپنی لغوی صلاحیت میں ، دنیا کی تمام قوموں سے ممتاز تھے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اس چیلنج کا مقابلہ پیش کرنے سے عاجز رہے۔ ان میں خاص طور پر قبیلہ ِ قریش، شاعری، فصاحت و بلاغت اور عربی لغت کے دیگر پہلوؤں میں کمال کی مہارت رکھتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی فنِ مہارت میں چیلنج کیا۔

’’یقینًا ہم نے اس کو قرآنِ عربی نازل فرمایا تاکہ تم سمجھ سکو‘‘ سورۃ یوسف: 2

جب رسول اللہ ﷺ اس عربی زبان کے قرآن کی تلاوت فرماتے تو ایک طرف تو قریش اس کلام کی زبردست کشش محسوس کرتے ، اور اسی وجہ سے چھپ چھپ کر اسے سنا کرتے تھے ، نیز قریش کا فصیح ترین سردار ولید بن مغیرہ، قریش کی ایک مجلس میں، قرآن کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتا ہے: ’’خدا جانتا ہے کہ تم لوگوں میں مجھ سے بڑھ کر کوئی شعر، رجز، قصیدہ اور اشعار کا جاننے والا نہیں ہے ۔ مگر اللہ کی قسم جو بات وہ(رسول اللہ ﷺ ) کہتا ہے ، وہ اِن میں سے کسی چیز کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتی اوراللہ کی قسم محمد(ﷺ) کے قول میں شیرینی ہے اور لطافت ہے اور اس کلام کا بالائی حصہ ثمردار ہے تو اس کا زیرین حصہ شکربار اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کلام ضرور بالا تر ہوگا اور اس پر کسی کو بلندی حاصل نہ ہوگی اور یہ بھی یقینی ہے کہ وہ اپنے سے نیچے چیزوں کو پامال کر ڈالے گا‘‘۔ دوسری طرف انہوں نے اسی کلام سے شدید دشمنی کا اظہار بھی کیاکیونکہ اس پیغامِ الٰہی سے ان کے تمام مفادات کو خطرہ لاحق تھا۔ یہ لوگ اپنی سرداری، اپنامال ، اپنی طرزِ زندگی و رسم و رواج اور اپنا وقار ، سب کچھ مٹی میں مل جانے سے خائف تھے۔

اسی سے، ان میں قرآن کا چیلنج پیش کرنے کے جذبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کو اس انتہائی پرکشش کلام سے دور رکھنے کی ہر کوشش کی اور رسول اللہ ﷺ پر ’’ساحر ِ بیان‘‘ ہونے کا الزام لگایا ، یہ افواہیں بھی اڑائیں کی یہ باپ کو بیٹے سے اور بیوی کو شوہر سے جدا کرتا ہے۔ نیز انھوں نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے پیروکاروں سے قطع تعلق کیا ، انہیں طرح طرح کی اذیتوں سے دوچار کیا اورآپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش بھی کی۔ اسلام کے خلاف جنگ میں اپنا مال و جان، سب کچھ قربان کردیا ، مگر تمام کوششوں کے باوجود، ان سے یہ نہ ہوسکا کہ یہ لوگ قرآن کی ایک سورت کی مثال لا دیں!چیلنج کی کوششیں رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جاری رہیں۔ مثلًامشہور شاعر اور صاحبِ لغت ابن مُقَفَّہ نے بھی ایک نظم تیار کی مگر جب کسی بچے نے اس کے سامنے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی

وَقِيْلَ يَآ اَرْضُ ابْلَعِىْ مَآءَكِ وَيَا سَـمَآءُ اَقْلِعِىْ وَغِيْضَ الْمَآءُ وَقُضِىَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِىِّ ۖ وَقِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِيْن

’’فرمادیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا،اسی وقت پانی سکھا دیا گیااور پورا کردیا گیا اور کشتی ’جودی‘ نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرمادیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو‘‘ سورۃ ھود: 44.تو شرمندہ ہوتے ہوئے اسے کہنا پڑا : ’’واللہ! اس جیسا کلام کبھی کوئی نہیں بنا سکتا اور یہ انسانی کلام ہی نہیں ہے!‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں، فصاحت و بلا غت کے پہلوؤں کے ساتھ صرف 17 الفاظ میں یہ تمام افکار بیان کردیے ہیں جنہیں اگر انسان بیان کرنا چاہے تو اسے بے شمار الفاظ کی ضرورت پڑے گی اور اس صورت میں اس جملے کو فصاحت و بلاغت کے پہلوؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ مگر قرآن یہاں اختصار اور فصاحت ، دونوں پہلوؤں کو کمال کے درجے پر برقرار رکھتے ہوئے ، ان کی ادائیگی کر رہاہے۔آج بھی استعماری قوتیں، اسلام کے خلاف جنگ میں ، کثرت سے وسائل صرف کر رہی ہیں اور ان کی راہنمائی میں مستشرقین ، مسلمانوں کا اسلام پر ایمان کمزور کرنے کے لئے، قرآن پر بے شمار الزامات عائد کررہے ہیں ۔ یہ لوگ بس اگر ایک قرآنی سورت کی مثال پیش کردیں تو سارا قصہ ہی ختم ہوجائے ! مگر یہ اس میں عاجز اور بے بس ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

’’کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں‘‘سورۃ الاسراء: 88

/ Published posts: 10

I am work in social worker