فکری و عملی غلامی سے آزادی کے راستے کی تلاش
ووٹر اور ووٹ خریدے جاتے ہیں کیونکہ سسٹم ووٹروں کو صرف غلامانہ ذہنیت والا بنانا چاہتا ہے۔ اس بیع و شراء کے بعد ووٹ بیچنے والے عوام کی بات کسی حکومت میں نہیں سنی جاتی ۔غلاموں کا تعلیمی نصاب اور اس تعلیم کے بعد خدمت غلامی کی مخصوص جابز ہیں۔ دوران ملازمت حصول حقوق کے دھرنے اور احتجاجی جلوس، ٹریفک بند، توڑ پھوڑ، عوامی املاک کا نقصان ۔۔۔۔۔۔
جو طلباء صرف نصابی کتب کو رٹا مار کر یا ٹیسٹ پیپروں یا گیٹ تھرو گائیڈز یا مطبوعہ خلاصوں یا مارکنگ کرنے والے استادوں کے ٹیوشن سنٹروں سے پڑھ کر امتحان پاس کریں گے ان سے آزاد فکر والی قوم کیسے تشکیل پا سکتی ہے؟جامعاتی ریسرچ تھیسس سرقہ کے پلندے، تحقیقات مکھی پہ مکھی، مسائل کے لیے علمی جان سوزی سے فرار، حقیقی محنتی افراد کے ساتھ ظلم اور نا انصافی وغیرہ وغیرہ
کیا یہ ہمارے معاشرے کے خصائص نہیں بن چکے؟
آئمہ مساجد کی اکثریت درست تلاوت قرآن نہیں کر سکتی، خطیب اصل اسلامی مصادر (قرآن ، کتب حدیث و فقہ…) سے استفادہ کے بعد خطاب کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ کتب تقاریر سے رٹا مار کر خوش الحان خطاب کرتا ہے کیونکہ مقصد پروگرام کو کامیاب کرنا اور حصول رزق میں استمرار ہوتا ہے ہدف اصلاح امت نہیں،۔۔۔۔عدالت میں وکیل لازمی، اس کا ہدف پیسہ ہے مظلوم کو انصاف دلانا نہیں، جج کا مقصد نوکری بچانا ہے فروغ عدل و انصاف نہیں،۔۔ہسپتال میں اطباء کا رویہ اور ترجیحات، اخراجات، لوازمات، ۔۔۔۔۔۔
اللہ اپنی حفظ و امان میں رکھے
ہفت روزہ، ماہانہ، دو ماہی، سہ ماہی، شش ماہی، سالنامہ وغیرہ رسائل و جرائد لاکھوں روپے کے اخراجات کے بعد بھی حقیقی تعمیر ملت سے کوسوں دور۔۔۔صحافی بالکل سچ رپورٹ کرے تو کھانا کہاں سے کھائے؟ سانس کس جگہ لے؟ معمول تعلیم اور سمجھ والا پولیس سپاہی بڑوں کی فرمائشوں پر رشوت نہ لے، بے گناہوں کو جیل میں قید نہ کرے۔۔۔۔۔۔
تو نوکری کیسے بچائے؟
کیا اسلامی فوج کی تعلیم و تربیت اسلام کے خالص تصور جہاد پر کی جاتی ہے؟ وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے؟ ترقیاں استحقاق کی بنا پر کی جاتی ہیں؟معاصر مراکز تصوف، پیری مریدی کے نظام سے مسلم معاشرے کی کیا اسلامی تعمیر ہو رہی ہے؟مدرسے میں دین اسلام سیکھنے اور حفظ قرآن جیسے انتہائی اهم کام پر ڈنڈے کھانے اور مرغا بننے والے طلبہ کیا کل کو آزاد فکری سے ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے؟
اے مسلم! آج فکری و عملی غلامی سے آسانی سے نجات کیسے ممکن ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو ہماری موجودہ اور آنے والی نسلیں ہم سے پوچھ رہی ہے۔اور مذکورہ مسائل کسی دوسرے ملک کے نہیں ہمارے اپنے ملک پاکستان کے ہیں۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے دنیا کی کوئی طاقت، کوئی حکومت، کوئی ہمیں ترقی یافتہ قوم نہیں بنا سکتی، اور انقلاب باہر سے نہیں اندر سے شروع ہوتا ہے۔ پہلے ہمیں اپنے اندر انقلاب لانا ہوگا اپنی سوچوں کو اپنی فکر کو اپنے طرز عمل کو بدلنا ہوگا۔تب ملک میں خوشحالی آئے گی تب میں، میرا معاشرہ، اور میرے بچے خوش حال ہوں گےاورترقی راہ پر گامزن ہوں گے ۔
ہمیں خود کو بدلنا ہوگا کیونکہ ہم بدليں گے تو پاکستان بدلے گا
سدا سلامت پاکستان تاقیامت پاکستان
طالب دعا: محمد توقیر رعنائی