تحریر:وقار سکھیرا
پاکستان کو اپنے وجود میں آنے کے ساتھ ہی بہت سی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔ ان میں سے ایک یہ کہ قائد اعظم نے پاکستان کے لیے جس جمہوری نظام کا خواب دیکھا تھا وہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ پھراس ملک کو اپنے وجود میں آنے کے چند سالوں کے بعد ہی مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے بھی بڑی آفت یہ آٸی کہ یہاں موروثی سیاست پیدا ہوگٸ اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس طرح کے سیاسی کلچر کو اس ملک میں پرموٹ کیا گیا ۔ ہمارے بزرگوں نے ان موروثی سیاستدانوں کے لئے اپنی جانیں نہیں دی تھی کہ تم اس ملک پر قابض ہو کر بیٹھ جانا۔ موروثی سیاست جب کسی قوم میں رواج پاتی ہے تو پھر وہاں ظلم و زیادتی، ناانصافی ، عوام کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں۔یہ ایک ایسا ناسور ہے کہ جب کسی قوم پر مسلط ہو جاۓ توپھر تباہی اس قوم کا مقدر بن جاتی۔ اور وہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
آج کل سب سے زیادہ جمہوریت کے دعویدار مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی بنی ہوٸ ہیں۔ ذرا ان کی اصل جمہوریت کو تو دیکھیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق صدر آصف علی زرداری جب بوڑھے ہونے لگے تو انہوں نے اپنی پارٹی کی صدارت اپنے بیٹے بلاول بھٹو کے سپرد کر دی ۔کیا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا سینئر یا قابل رہنما نہیں تھا کہ جو اس بچے کی بجاۓ خود صدارت کر سکتا ہے۔اسی طرح آپ مسلم لیگ نون کو بھی دیکھ لیں کہ جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی اپنی اولاد ہی کو آگے لے کر آئے ہیں کر چکے ہیں ۔ آپ اس ملک کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جو آج کے سیاست دان ہیں ان کے باپ بھی سیاستدان تھے اور جو آئندہ آئیں گے وہ ان کی ہی اولاد ہوگی۔ موروثی سیاست ہمارے ملک کے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوٸ ہے۔ ان سیاستدانوں نے اپنے مفادات کی خاطر تمام ادارے تباہ کردیے گۓ ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ موروثی سیاست اصل میں موروثی ڈیکٹیٹر شپ ہے جو اپنے اوپر جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ اس ملک پرچند گھرانوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کو مزید تباہی سے بچایا جائےتو ہمیں چاہیے کہ ان موروثی سیاستدانوںسے چھٹکارا حاصل کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم وہ جمہوری نظام اس ملک میں لے کر آئیں جس کق خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ تا کہ عوام کے حقیقی نمائندے حکومت میں آئیں اور اس ملک کی خدمت کر سکیں اور اس ملک کو ترقی کی منزل تک لے کر جا سکیں۔