Skip to content

معاشرے کا ناسور

یوں تو ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے شعبے ہیں جن کو آپ معاشرے کا ناسور کہہ سکتے ہیں لیکن ان میں ایک پیشہ ایسا ہے جو کہ ان ناسوروں میں سب سے آگے نظر آتاہے اور وہ ہے گداگری یعنی بھیک مانگنے کا پیشہ !!! یہ وہ پیشہ ہے جو کہ دیمک کی طرح پورے معاشرے کو کھارہا ہے ۔ہر گلی ، ہر محلے اور ہر شہرمیں آپ کو روزانہ سینکڑوںکی تعدا د میں پیشہ ور بھیک مانگنے والے باآسانی نظر آئیں گے ۔جن کا اولین مقصد آپ کی جیب کا پیسہ بغیر کسی وجہ کے اپنی جیبوں تک پہنچانا ہوتاہے ۔ اب یہ بھیک مانگنے والے ہمارے معاشرے میں ایک روٹین کی طرح عام ہوچکے ہیں ۔ اب لوگ بھی بغیر کسی تردود کے انہیں باآسانی روپے پیسے دے دیتے ہیں ۔

پہلے کے دور میں یہ بھیک مانگنے والے بھیک مانگنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کرتے تھے ،اپنے جسم پر مصنوعی زخم بنواتے تھے تاکہ لوگوں کوان پر رحم آسکے لیکن اب معاملات بالکل برعکس ہوچکے ہیں اب انہیں کسی بھی قسم کے مصنوعی زخم کو بنوانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ صرف میلے کچلے کپڑوں سے ہی ان کاکام چل جاتاہے ۔پہلے کے دور میں ان لوگوں نے پورے ہفتے میں مانگنے کا ایک مخصوص دن ’’جمعرات ‘‘ کا بنایاہواتھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مانگنے کے دنوں کو برھانا شروع کردیا اور اب یہ لوگ پورے ہفتے ہی سڑکوں، گلیوں اور شہروں میں دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ دوکانوں کے باہر کھڑے ہوکر یاکسی ایسی دوکان کے باہر جہاں لوگوں کا رش رہتاہے وہاں یہ لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ہوٹل ،ریسٹورنٹ ،پٹرول پمپس اور ہر وہ جگہ جہاں ان کو روکنے کا کوئی انتظام نہ ہویہ لوگ روزانہ کی بنیادوں پر موجود رہتے ہیں ۔

’’گھر میں جوان بچیاں بھوکی ہیں‘‘،’’ میرے والدکو کینسر ہے ۔‘‘، ’’میں دوسرے شہر سے آیاہوں راستے میں جیب کٹ گئی ہے جانے کا کرایہ نہیں ہے۔‘‘، ’’اللہ کے نام پہ کچھ دے دو مجھے دوائی لینی ہے ۔‘‘ یہ اور اس جیسی بہت سی صدائیں ہے جو روزانہ ہمارے کان سنتے ہیں اور ہم ان پر کان ہی نہیں دھرتے بلکہ روزانہ ایک ہی جیسی صدائیں لگانے والوںکو بار بار بھیک کے نام پر روپے دیتے رہتے ہیں اور ان پیشہ وروں کا پیشہ چلانے میں ان کی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ مذہبی تہواروں میں بھی یہ بڑی تعداد میں اُمڈآتے ہیں اور زکوۃٰ کے نام پر بھی لوگ انہیں روپے دیتے ہیں۔

حالانکہ یہ بات مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جانتی ہے کہ زکوۃٰ ان لوگوں کا حق ہے جو کہ لوگوں کے سامنے دست سوال یعنی بھیک نہیں مانگتے وہ اپنی سفید پوشی کے ساتھ اپنی زندگی کہ دن گزارہے ہوتے ہیں بس انہیں تلاش کرکے انہیں زکوۃٰ دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم انہوں تلاش کرنے کے بجائے ان پیشے وروں کو زکوۃٰ دے کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا اور جائز حق داروں کو تلاش نہیں کرتے حالانکہ آج کے دور میں یہ تلاش اتنی مشکل بھی نہیں رہی ۔مہنگائی نے غریبوں کی کمرتوڑ کردکھی ہوئی ہے اور ہر وہ شخص جسے اللہ نے صاحب ثروت بنایا ہے وہ بھی اپنے اردگرد بہت سے ایسے لوگوں کو جانتاہے جو کہ ضرورت مندہونے کے باجود بھیک نہیں مانگتے بلکہ اپنی زبانوں پر صبر کے تالے لگاکررکھتے ہیں ۔ان لوگوں کو اگر ان کا حق مل جائے تو آپ کا فرض بھی صحیح طرح ادا ہوسکے گا اور پیشہ ور بھکاریوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔

تحریر :محمد فاروق قریشی
mfcreative99@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *