دو قسم کے انسان ہوتے ہیں ، ایک اللّہ کی طرف مائل ، اور ایک اللّہ کی طرف نہ مائل ۔
جو اللّہ کی طرف مائل نہیں ہے ، اس پر بیماری سزا ہے ، بڑی ابتلاء ہے ، بڑی پریشانی ہے ، اور غریبی عذاب ہے ۔
اللّہ والے کو ، غریبی اللّہ کے قریب کرتی ہے ۔ جو اللّہ کے تقرب میں رہتے ہیں ان کو بیماری بھی اللّہ کے قریب کرتی ہے ۔
یہ دونوں اللّہ کے تقرّب میں ہیں ۔ کیونکہ اللّہ کے محبوبﷺ جو ہیں ، وہ بیماری سے بھی گزرے ہیں اور غریبی سے بھی ۔ نیک آدمی کے لئے بیماری پیغام ہے اللّہ کا ۔ برے آدمی کے لئے بیماری سزا ہے ۔ ایک درویش تھے ان کے پاس دو تین مرید گئے ۔ انہوں نے سب کے لئے دعا کی ۔ایک کا بچہ بیمار تھا ، ٹھیک ہو گیا ۔ مرید پھر آیا اور سوال کیا کہ ، ہم نے دیکھا آپ خود بیمار تھے ، آپ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا میں نے دعا کی تھی۔۔۔ جواب آیا ، کہ پہلے فیصلہ کرو کہ ، یہ وجود تمہارا ہے یا ہمارا ہے ؟
بس ، جو اللّہ کے قریب رہنے والے ہیں ، وہ اپنے وجود کو اپنا نہیں سمجھتے ۔
یہ بات واضح ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ جس دل میں اللّہ کی یاد ہو ،، وہ اللّہ کا ، اپنا دل ہوتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنا کہ اس شخص کا وہ حصہٴجسم اللّہ کا اپنا ہے ۔ اگر آپ کی آنکھ اللّہ کے جلوے دیکھنے لگ جائے تو یہ فانّہ ینظر بِنوراللّہ ، یعنی “وہ اللّہ کے نور سے دیکھتا ہے” . یعنی وہ آنکھ ، اللّہ کی آنکھ ہو جاتی ہے ۔
اللّہ خود فرماتا ہے کہ میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں ۔
اب اگر آپ کی آنکھ غیر اللّہ کو نہ دیکھے تو ، یہ آنکھ اس کی اپنی بن جائے گی ۔جب دل ، غیر اللّہ کے لئے نہ ہو ، تو یہ دل ، اللّہ کا بن جائے گا ۔ اور اسی طرح ، وجود بھی اس کا بن جائے گا ۔ وہ انسان ، جس کو اللّہ کا قرب حاصل ہے ، وہ اپنے وجود کو اللّہ کے حوالے کر دے ۔اب ، اللّہ بیمار کرے ، صحت مند رکھے ، جو مرضی کرے ، کیونکہ وہ آپ کا مالک ہے ۔وہ جو ، گھر کا مالک یے ، وہ جو مرضی کرے ۔ تو ، تقرب والا آدمی ، بیماری کو ابتلا نہیں سمجھتا بلکہ اس کا فضل سمجھتا ہے اور اسے خوشی سے گزارتا ہے ۔ کہ کیفیت ، اس کی یاد ہے ، یعنی اللّہ کی یاد ہے ۔۔۔۔۔
یاد ، آری کے دندے کی طرح ہے ۔ بیماری کی آری چلتی ہے لیکن ، یہ اس کی یاد ہے ۔
شہید تو اللّہ کے بہت قریب ہوتا ہے ۔ کسی کے ہاتھوں میں اس کا بیٹا شہید ہو جائے تو پھر کون برداشت کرے گا لیکن منزلت اور مرتبت کے لحاظ سے ، اس سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں ۔لیکن ۔۔۔۔ تجربہ کے لحاظ سے ، اس سے زیادہ خوفناک شے کوئی نہیں ۔ آپ کے بچے کے بیمار ہونے کا امکان پیدا ہو جائے ، تو آپ کی زندگی میں زلزلہ آجاتا ہے اور ،۔۔۔۔.اپنے ہاتھ پر بچہ تڑپتا رہ جائے تو ، یہ انہی کا حوصلہ ہو سکتا ہے ۔ مرتبے اور منازل کے لحاظ سے ، اُن مقربینِ حق کے مقامات ، ان کے مقامات ہیں ۔
بیماری برداشت کرنا بھی ، اسی مقام کا فیض ہے ۔ یہ فیض ہے کسی شہید کے ساتھ نسبت کا ، کسی طاقت ور شے کے ساتھ نسبت کا ،اور کسی قلندر کے ساتھ نسبت کا ۔. اب بات سمجھ لو کہ یہ انہی کا فیض ہے ، انہی کے ساتھ نسبت ہوتی ہے ۔نسبت نہ ہو تو پھر پریشانی کی بات ہو گی ۔ اگر اُس کے ساتھ نسبت ہے ، تو پھر تیرا حال ، اس مالک پر ، کہے بغیر ظاہر ہو گا !کیونکہ وہ ہر کسی کا مالک ہے ۔ وہ جو چاہے کرے ۔ میرا خیال ہے قریب رہنے والوں کو اس نے ہمیشہ تھوڑی دقت میں رکھا ہے ، اور انہیں جگاتا رہا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ قریب ہونے کا ثبوت ہی یہ ہے کہ ، تھوڑی صحت اور تھوڑی بیماری رہتی ہے ۔۔۔
اس کے باوجود بھی چونکہ آپ آج اس محفل میں آئے ہیں ، اس لئے آپ کے لئے دعا کرنی چاھئیے کہ بیماری سے نجات مل جائے ، اللّٰہ کا قرب بھی رہے اور بیماری سے نجات بھی مل جائے ۔ اللّٰہ آپ سب کو صحت کے ساتھ سلامت رکھے ۔ عبادت اور محبت میں زندہ رکھے ۔ اور سب توفیق اسی کی ہے !! ۔
حضرت واصف علی واصف رح
( گفتگو 5 /صفحہ 78 تا 80 )