میرے نزدیک سب سے بڑا کام جو ہوا ہے وہ یہ کہ قرآن پاک کے لیے درآمد شدہ کاغذ پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے…………. بہت خوب
کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے مہانا مقرر کر دی گئی. تنخواہ دار طبقے پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگے گا وفاقی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن میں 10% اضافہ کیا جائے گا .
بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم | اسٹاک مارکیٹ ، ائیر ٹریول سروسز پر ڈبلیو ایچ ڈی ختم | ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ سے بین الاقوامی ٹرانزیکشن پر ڈبلیو ایچ ڈی ختم | ٹیلی مواصلات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 17% سے 16% کمی کی تجویز ( یعنی ان سب پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم )
حکومت کا پاکستان میں تیار 850 سی سی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے کم کر کے 12.5% کرنے کا فیصلہ ، 850 سی سی امپورٹڈ گاڑیوں پر کسٹم ڈیوٹی ختم ، مقامی چھوٹی گاڑیوں کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس نہیں دینا ہو گا فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چھوٹ بھی دی جا رہی ہے ، الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 1% کرنے کا فیصلہ اور مقامی بائیک ، ٹرک ، ٹرکٹر پر ٹیکس میں کمی کی گئی ہے.
تین منٹ سے لمبی کال پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگے گی. انٹرنیٹ ڈیٹا کے استعمال ، ایس ایم ایس پر ڈیوٹی نافز ، فون پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 2.5% کمی یعنی ساڑھے بارہ سے کم کر کے دس فیصد کی جاے گی ، حکومت کا ای کامرس کو سیلز ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ ،آئی ٹی زون کے لیے سامان ( پلانٹ ، مشینری ، خام مال ) پر ٹیکس چھوٹ کی تجویز | موبائیل فونز سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس 8% تک کم ہو گا .
پاکستان کو ایک کروڑ رہائشی مکانوں کی کمی کا سامنا ہے ، ہاوسنگ اسکیموں کے لیے ٹیکس رعایت کا پیکج تیار ، کم آمدن والوں کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے تین لاکھ روپے سبسڈی دی جائے گی. بینکوں کو سو ارب قرض کی درخواستیں ملی. مکانات کی تعمیر کے لیے 70 ارب کی منظوری دی جا چکی ہے ترقیاتی بجٹ چالیس فیصد بڑھایا جا رہا ہے.
کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے لیے 739 ارب مختص ، وفاق 98 ارب دے گی سرکاری و نجی اشتراک سے 509 ارب روپے آئیں گے .انکم ٹیکس اتھارٹی کے صوابدیدی اختیارات کم ہوں گے ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے پر سخت کاروائی ہو گی سیلف اسیسمنٹ اسکیم اصل شکل میں بحال ہو گی سادہ فارم اور نئے قوانین لائے جائیں گے .
قابل تقسیم ٹیکس محصولات سے 3310 ارب روپے حاصل ہوں گے ، پنجاب کو 1691 ارب،سندھ کو 848 ، کے پی کے کو 559 ارب ، بلوچستان کو 313 ارب روپے ملیں گے .اگلے سال کے لیے 8487 ارب کا بجٹ پیش کیا گیا معاشی ترقی کا حدف 4.8% رکھا گیا
کوویڈ ریلیف فنڈ کے لیے 100 ارب مختص
بلدیاتی، مردم شماری کے لیے 5-5 ارب مختص
پی آی اے کے لیے 20 ارب مختص
سٹیل ملز کے لیے 16 ارب مختص
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 66 ارب مختص
اینٹی ریپ فنڈ کے لیے 10 کروڑ مختص
زرعی شعبہ کے لیے 12 ارب مختص
پھلوں کے رس پر عائد ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ ، زرعی اجناس کے گوداموں کو ٹیکس چھوٹ کی تجویز اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لیے 2 ارب مختص
زیتون کی کاشت کے لیے 1 ارب مختص
8487 ارب کے بجٹ میں 964 ارب ترقیاتی کاموں کے لیے مختص جاری اخراجات کے لیے سات ہزار 523 ارب مختص ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا حدف 5829 ارب بجٹ دستاویز
نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 80 ارب اور حکومت کی مجموعی آمدن سات ہزار نو سو نو ارب ہو گی. نان بینکنگ قرض ایک ہزار 241 ارب ہو گی ، بیرونی زرائع سے قرض 1 ہزار 246 ارب ہو گا .بینکوں سے ٹی بلز ، پی آی بیز ، اور سکوک بانڈز سے 681 ارب روپے حاصل ہونگے .نجکاری پروگراموں سے 252 ارب حاصل کیے جائیں گے .سود اور سود کی ادائیگی پر 3 ہزار 60 ارب روپے خرچ ہونگے .پینشن کی ادائیگی کے لیے 480 ارب ، دفاعی اخراجات کے لیے 1 ہزار 370 ارب مختص کیے گئے .اگلے سال بجٹ خسارہ 3 ہزار 990 ارب روپے ہو گا
تو یہ تھا اس سال کا بجٹ
( تحریر از اسامہ ظہور اسفرائنی )