برطانیہ میں آزادی کے منشور پر دستخط ہوتے ہیں. بارہ سو پندرہ اس وجہ سے ایک ناقابل فراموش تاریخی سال بن گیا ہے کہ اس سال انگلستان کے بادشاہ جان نے اس فرمان پر دستخط کیے جو منشور اعظم کے نام سے مشہور ہے یہ منشور امریکہ اور برطانیہ کی شہری آزادی کا بنیادی پتھر بن گیا جان اعلی ظرف بادشاہ نہ تھا کہ آپ نے کسی قیمتی حق کو خوشدلی سے چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتا لیکن بہت سے لوگ اس کی مخالف تھے وہ امیروں اور عوام کو عجیب و غریب منصوبوں سے پریشان کرتا اس نے بھاری ٹیکس لگائے
لڑائیوں اور جنگ فرانس کا خرچ عوام کی ذمہ داریاں عدالتی نظام بگڑ گیا علاوہ ازیں جان کی نجی زندگی بھی رسوائی کے دھبوں سے آلودہ تھی آخرکار امیروں نے اس کے سامنے جچے تلے مطالبات پیش کر دیے ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات ماننا ہے تو بغاوت ہو جائے گی جان نے کھلی شکست سے بچنے کے لیے کلیسا کو کچھ رعایت دے دیں ان کے لیے آزادانہ انتخاب کا اصول تسلیم کرلیا اور باشندگان نے لندن کو خاص حقوق عطا کیے تاہم طالبان امیر پیش کر چکے تھے ان پر مضبوطی سے جمے رہے آخر کار 15 جون 2015 کو خفیف ردوبدل کے بعد میں مشہور ہے کہ تمام بادشاہ اس کی تصدیق کرتے رہے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس نام نہاد دانشور اور بادشاہ اور امراء کے باہمی تعلقات کی وضاحت کی گئی تھی لیکن ان میں سے کسی کو عوام کی بہتری اور بہبود مقصود نہ تھی جو لوگ آزاد تھے انہیں یہ حق مل گیا کہ
اپنے مقدمات کا فیصلہ حلقے کے امیروں سے کرالیں انگلستان کے زیادہ تر باشندے ذرائع علم تھے انہیں چار سو سال اور اسی حالت میں گزارنے پڑے منشور اعظم حقیقی جمہوریت کی شاہراہ پر بلا ارادہ ایک اہم سنگ میل بن گیا
نیوز فلیکس 05 مارچ 2021