وہ کالج میں پڑھتا تھا تو اس نے سوچا کہ کچھ سکلز سیکھ لی جائیں۔ وہ سیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ پڑھائی بھی جاری رکھی۔ وہ میڈیکل کا طالب علم تھا اس لیے پڑھائی سخت تھی۔ وہ دن رات محنت کرتا اور سکلز کے لیے کچھ نا کچھ وقت بھی نکالتا۔ اللہ پاک نے اس کی محنت کا پھل اسے دیا اور وہ ایم بی بی ایس میں داخلے کے لیے کامیاب ہوگیا۔ اب وہ ان سکلز کا استعمال کر کے انٹرنیٹ سے پیسے کما رہا ہے۔ ساتھ میں وہ ڈاکٹر بھی بن رہا ہے۔ یہ سب اس کی اس محنت کا نتیجہ ہے جو اس نے کی تھی۔ ابھی بھی وقت ہے آپ لوگ بھی کچھ سیکھ لیں، آپ بھی کچھ نا کچھ بن جائیں گے۔ انسان کے نصیب میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اسے مل کر رہتا ہے۔ مگر محنت و لگن انسان کو اس کے خواب پورے کرنے میں مدد کرتی ہے۔ اسی محنت سے فقیر بادشاہ بنے ہیں اور کئی کامیاب لوگ اس دنیا میں اپنا نام پیدا کر کے گئے ہیں۔
میں پچھلے دنوں جاوید چوھدری صاحب کی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ نقلی اور اصلی انسان کی پہچان کے بارے میں بتا رہے تھے۔ انہوں نے ایک قصہ سنایا جس میں ایک بادشاہ ہیروں کی پہچان کا مقابلہ کراتے ہیں۔ بادشاہ کہتے ہیں کہ اگر جس نے اصلی اور نقلی ہیروں کی پہچان کر لی اس کو وہ سب کچھ دے دیا جائے گا جو وہ کہے گا۔ اگر کوئی شخص ان کی پہچان نا کر سکا تو اس کی گردن اتار دی جائے گی۔ اسی طرح کافی لوگوں نے اس میں حصہ لیا مگر کوئی بھی انسان ان ہیروں کی پہچان نا کر سکا۔ ہیرے کانچ کے ہیروں کے ساتھ ایسے بنے ہوئے تھے کہ اصلی و نقلی کی پہچان کرنا مشکل کام تھا۔ اتنے میں ایک اندھا فقیر آیا اور کہنے لگا کہ یہ کام میں کر سکتا ہوں۔
اس پر بادشاہ ہنسا اور اس فقیر کو کہا کہ جو کام آنکھوں والے نہیں کر سکے وہ تم اندھے ہو کر کیسے کر سکتے ہو۔ فقیر نے کہا کہ میں یہ کام با آسانی کر سکتا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ کے حکم پر وہ تمام ہیرے اس اندھے فقیر کے سامنے رکھ دیے گئے۔ اس فقیر نے وہ تمام ہیرے نکالے اور دھوپ میں رکھ دیے۔ کچھ دیر کے بعد وہ اصلی و نقلی ہیرے اپنے ہاتھوں میں کے کر بادشاہ کے پاس آیا اور بادشاہ کو وہ ہیرے دے دیے۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اصلی و نقلی ہیرے الگ الگ ہیں۔ بادشاہ نے فقیر سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسے کیا ہے۔ فقیر نے جواب دیا کہ میں نے دھوپ میں یہ ہیرے رکھے تھے۔ جو ہیرے گرم ہوگئے وہ نقلی تھے اور جو گرم نہیں ہوئے وہ اصلی۔ انسان کی پہچان بھی یہی ہے۔ جو انسان جلدی غصہ کرتا ہے وہ نقلی انسان ہے۔