ایک دفعہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ تشریف لے جا رہے تھے اور کچھ لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ایک جگہ دیکھا کہ کچھ جوان ہیں جو شراب پئے ہوئے ہیں اور ایک شور برپا کر رکھا ہے،کچھ لڑ رہے ہیں اور کچھ ڈھول بجا رہے ہیں اور سب نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے۔چلتے چلتے آپ ان کے قریب پہنچ گئے اور ان لوگوں نے کوئی پرواہ نہ کی،
شراب کے نشہ میں دھت ہو رہے تھے۔جب آپ ان کے قریب سے گزر کر دجلہ کے کنارے پہنچ گئے تو آپ کے ساتھیوں نے کہا کہ آپ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ کہ وہ ان سب کو غرق و تباہ کر دے۔
آپ نے فرمایا: بہت بہتر تم یہی چاہتے ہو کہ یہ تباہ ہو جائیں اور ان کی برائیوں کا اثر دوسرے لوگوں تک نہ پہنچے تم بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاؤ اور میں بھی اٹھاتا ہوں۔آپ کے فرمانے پر سب نے نے ہاتھ اٹھا لئے تو آپ نے دعا کی کہ یا اللہ! ان لوگوں کو جیسا عیش و سرور دنیا میں عطا کیا ہے آخرت میں بھی ان لوگوں ایسا ہی عیش و سرور عطا فرما۔
آپ کے متعلقین بد دعا کے بجائے آپ کی دعا سن کر بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے حضرت ہم اس دعا کا راز سمجھنے سے قاصر ہیں۔آپ نے فرمایا جلدی نہ کرو انشاءاللہ،اللہ تعالی خیر فرمائیں گے۔
چند لمحوں کے بعد ان نوجوانوں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی۔شراب کی بوتلیں اور موسیقی کے آلات توڑ ڈالے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر صدق دل سے توبہ کی اور معافی مانگی۔
آپ نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ غرق ہوئے بغیر یہ سب کے سب راہ راست پر آگئے فساد ختم ہو گیا اور ان کی نفسانیت فنا ہوگئی۔تمہارا بھی مدعا پورا ہوگیا،اور یہ سب کے سب جوان بھی اپنی مراد کو پہنچ گئے۔
واقعی بزرگی و عظمت یہی ہے کہ سامنے والا بندہ کیسا ہی نیک ہو یا بد،ہر حالت میں اللہ کی مخلوق کی بہتری کو پیش نظر رکھا جائے کیوں کہ اللہ کریم اپنے بندوں کا بھلا چاہنے والے شخص سے بہت خوش ہوتا ہے۔