Skip to content

پاکستان کے دودھ کی محافظ بلی دودھ پیتے پکڑی گئی

پاکستان کے دودھ کی حفاظت کےلئے جس بلی کو رکھوالی کے لیے بیٹھایا گیا تھا وہ بلی ہی دودھ پینے لگ جائے گی پھر دودھ تو ایک دن ختم ہو ہی جائے گا اور اس بلی کا نام ہے آڈیٹر جنرل آف پاکستان جس کے دفتر میں 180 ارب روپے کی کرپشن پکڑی گئی ہے
آڈیٹر جنرل آف پاکستان وہ ادارہ ہے جس کا کام ہی یہی ہے کہ اگر پاکستان میں ایک روپے کا بھی کام ہو چاہے وہ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت کرے اس چیک پڑتال کرنا اور اس کے بارے میں رپورٹ شائع کرنا کہ کون کون سے شروع کیئے گئے پروجیکٹ شفاف ہیں اور کن میں کرپشن کی گئی ہے اور اس تیار کردہ مفصل رپورٹ کو نیشنل اور صوبائی لیول پر بپلک اکاؤنٹس کمیٹی کو جمع کروانا جن کے سربراہان اپوزیشن لیڈرز ہوتے ہیں جیسا کے موجودہ دور حکومت میں وفا ق میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز شریف بپلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سربراہان ہیں
لیکن یہ ہے پاکستان جہاں لوگ اسلام کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی بھائی بھائی ہیں اور کرپشن بھائیوں کا یہاں اپنے حقیقی بھائیوں سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور جب کہا جائے بھائی کا ذرا خیال رکھنا یا اپنے بھائی کا بھی خیال کرو تو دبے الفاظ میں کرپشن کی پیشکش یامانگ ہو رہی ہوتی ہے اور دونوں پھر لین دین کرکے کرپشن بھائی بن جاتے ہیں اور یہ رشتہ میاں بیوی کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہو تا کیونکہ وہاں پر تو علیحدگی ہوسکتی لیکن یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ دونوں فریق کرپشن کی گندی نالی کی پیداوار جو ہوتے ہیں اور یہی ان کا طریقہ واردات ہے جو پاکستان کو آج معاشی طور پر تباہ کر چکا ہے اس لیے تو چور حضرات میڈیا پر آکر کہتے ہیں کہ ایک ڈھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان کو اپنے ان کرپشن بھائیوں پر یقین ہوتا کہ یہ ہمیں بچا لیں گے
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کافی اہم ادارہ ہے کیونکہ ملک کی ہر ایک فنانشل ٹرانزیکشن کا انہوں نے باریک بینی سے مشاہدہ کرنا ہوتا ہے جسے فنانشل ٹرمز میں یا عرف عام میں آڈٹ کہا جاتا ہے اگر ان کو مزید آسان الفاظ میں سمجھیں تو ان کا کام ملکی اکانومی کے لیے آئی ایس آئی والا ہوتا ہے سوچیں ذرا اگر آئی ایس آئی ہی ملک دشمنوں کے ساتھ مل جائے تو ملکی سالمیت کو کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے یقیناً ایک پاکستانی ہونے کے ناطے یہ سوچتے ہی آپ کو ملکی سالمیت کے حوالے سے کئی وہم و گمان آپکے دماغ میں آنے لگ جائیں گے اور یہ ادارہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے وہ نقصان پہنچا چکا ہے پر فرق اتنا ہے کہ اس معاملے میں دشمن اندرونی تھا اور اس ادارے کے لیے ایک پاکستانی ہونے کے ناطے یہ کہوں کہ کتی چوروں کے ساتھ مل گئی تو مجھے ذرا بھی پشمانی نہیں ہوگی کیونکہ جو اس ادارے نے کیا ہے وہ ایک سنگین غداری ہے اور عمران خان اگر ملک کو واقعی اس کرپشن کی نجاست سے نجات دلانا چاہتے تو ان لوگوں کو ایسے دیوار کے ساتھ لگائیں کہ صدیوں اس ادارے کے افراد اس سزا کا سوچ کر ہی ڈریں اور ملک کوئی سکون کی سانس لے سکے جو ایسے درندوں سے پچھلے ستر سال سے زخم کھاتا آرہا ہے اور مزید کسی زخم کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *