Skip to content

The wall of Peshawar and its gates

پشاور تاریخ کے آئینے میں
نزہت قریشی

فصیل پشاور اور اس کے دروازے (1700 سے تا حال )
نمبر1۔ کابلی دروازہ:۔ جیسے کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دروازہ جس سڑک پر بنایا گیا ہے وہ کابل کی طرف جاتی ہے۔ اور جو مسافر کابل سے آتے تھے وہ اس راستے سے قصہ خوانی بازار میں داخل ہوتے تھے۔ قصہ خوانی بازار اپنی قدیم روایات مثلاً قہوہ خانےاور سرائے وغیرہ۔ جہاں مسافر ٹھہرتے تھے اور سامان تجارت کو اس بازار میں فروخت کرتے تھے اور مختلف کھانوں سے لطُف اندوز ہوتے تھے

نمبر2۔ اندر شہر یا آسامائی دروازہ:۔اندر شہر کے قریب ایک ہندوؤں کا مکان تھا آسامائی۔ اس لیے یہ دروازہ اسی نام سے مشہور ہو گیا۔اس میں داخل ہوتے ہی سُنار بازار ہے جہاں سونے کے دلکش زیورات بنائے جاتے ہیں ان خوبصورت سونے کے زیورات سے مزین بازار اپنی چمک دمک کی وجہ سے لاثانی ہے

نمبر3۔ کچہری دروازہ:۔سکھوں کے دور میں اس دروازے پر عدالت خانہ بنایا گیا تھا اس وجہ سے اس کو کچہری دروازے کا نام دیا گیا

نمبر4۔ سرکی دروازہ :۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کی لمبی سڑک ڈبگری دروازے کو ملاتی ہے اس لیے اس کو یہ نام دیا گیا ۔ 1950 میں یہ ایشیاء کا گیٹ کہلاتا تھا ۔

نمبر5۔ رامپورہ دروازہ:۔ اس علاقے میں ہندو بُہت تعداد میں تھے اور اُن کے مندر بھی تھے ۔ رام کے مندر کی وجہ سے اس جگہ کو رامپورہ کہا جاتا تھا۔ اسی نام پہ اس دروازے کا نام بھی مشہور ہو گیا۔

نمبر6۔ ہشت نگری دروازہ :۔ چارسدہ کے علاقے کو ہشت نگر بھی کہتے ہیں۔ اس دروازے سے باہر سیدھا راستہ چارسدہ کی طرف جاتا ہے اُسی کی وجہ سے اس کو ہشت نگری کا نام دیا گیا۔

نمبر7۔ لاہوری دروازہ :۔ جیسے کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ راستہ لاہور کی سمت کو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا

نمبر8۔ گنج دروازہ :۔ گنج کے معنے ہیں خزانہ۔ اس علاقے میں بڑے بڑے خُو بصورت اور قدیم طرز تعمیر کے مکانات کی وجہ سے اسے گنج کا نام دیا گیا اور اسی وجہ سے اسے گنج دروازہ کہا جاتا ہے

نمبر9۔ یکہ توت دروازہ :۔ ایک قدیم روایت کے مطابق اس علاقے میں ایک زیارت کے قریب توت کا ایک بُہت بڑا اور قدیم درخت تھا جو تقریباً ہزار سال پُرانا تھا۔ اسی کے نام پہ اس دروازے کو یکہ توت کا نام دیا گیا۔

نمبر10۔ کو ہاٹی دروازہ :۔ اس سے جو سڑک جاتی ہے وہ کوہاٹ کی سمت نکلتی ہے ۔ اس لیے اسے کوہاٹی دروازہ کہا جاتا ہے۔
نمبر11۔ ریتی دروازہ:۔اس میں ایک بازار ہے جس میں لوہے کی اشیاء بنائی جاتی ہیں مثلاً اوزار، برتن اور مختلف عمارتی سامان وغیرہ اس بازار کا نام ریتی بازار ہے اسی کے نام پر اس دروازے کا نام بھی ہے۔

نمبر12۔ ٹھنڈی کھوئی دروازہ:۔ اس علاقے میں ایک کنواں تھا جس کا پانی گرمی میں بے حد ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ اسی وجہ سے یہ جگہ ٹھنڈی کھوئی یا چاہ سرد کے نام سے مشہور ہوئی۔اور اس دروازے کو بھی یہی نام دیا گیا۔

نمبر13۔ طبیباں دروازہ :۔ اس میں واقع محلہ طبیباں تھا ۔ جہاں حکیموں کے دوا خانے اور دُکانیں تھیں اسی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا۔

نمبر14۔ رامداس دروازہ :۔ اس سے مُتصل رامداس بازار کی وجہ سے اس کا نام رامداس پڑا۔

نمبر15۔ ڈبگری دروازہ :۔ ہاتھ بنائی ہوئی مصنوعات اور مختلف آلات بنانے والے کو ڈبگر کہتے ہیں اس لیے ان لوگوں کی وجہ سے یہ علاقہ ڈبگری کہلاتا تھا۔ اس علاقے کے نام پر اس دروازے کا نام ڈبگری دروازہ اکھا گیا۔

نمبر16۔ باجوڑی دروازہ :۔ چونکہ یہ بجا نب با جوڑ واقع تھا۔ اس لیے باجوڑی دروازہ کہلایا۔ یہ دروازہ اب اپنی اصلی جگۃ پر مو جود نہیں۔ پشاور کے یہ قدیم دروازے اس کا قیمتی اثاثہ اور شناخت ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *