میں نے یے سوچ کر کالج میں ایڈمیشن لیا کہ زندگی بہتر ہو جائےگی۔میں کالج جانے کےلیے بے تاب تھا۔کیوکہ میں دیہات کا رہنے ولا تھا اور میراایڈمیشن شہر ہوا تھا ۔کیو کہ میں اپنی زندگی میں کالج پہلی بار جا رہا تھا۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ کالج کیسا ہو گا ۔وہاں تو کوی٫ میرا دوست بھی نہی۔اور سب سے زیادہ جو سوال مجھے تنگ کر رہا تھا کہ وہاں پر استاد کسے ہو گے۔یہی سوالات رات بھر میرےدماغ میں چلتے رہے
مجھے نید نہی آرہی تھی۔جیسے دن کا آغاز ہوا میں نے اٹھ کر نماز اداکی اور دواکی کہ میرا آج کا دن بہت اچھا گزرے ۔پھر میں گھر آیا اور کھانا کھانے کے باد کالج کی تیاری کی ۔اتنے میں ہارن کی آواز مجھے سنای دی ۔میں نے باہر دیکھا کہ گاڑی آچکی ہے۔میں نے امی سے دعا لی اور گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ گاڑی جسے آگے بڑھ رہی تھی ۔میرے دل کی رفتار تیز ہو رہی تھی۔جسے گاڑی رکی تو ایک شاندار کالج میری آنکھوں کے سامنے تھا ۔کالج آنے کے باد میں خوش بھی تھا اور پریشان بھی۔کیوکہ سب کچھ نیا تھا میری زندگی میں۔سب سے مشکل بات یہ تھی ۔کہ یہا ں کے اداب میرے لیے بوہت مشکل تھے کیو کہ جس سکول میں پہلےپڑھتا تھا۔وہاں پر آداب تو دور کی بات وہاں پر تو استاد بھی بڑی مشکل سے آتا تھا ۔میں کلاس میں ایسے بیٹھا تھا جیسے مجھ سے زیادہ شریف یہاں پر کوی٫ نہ ہو ۔جیسے ہی استاد کلاس میں داخل ہوے سب نے کھڑے ہو کر استقبال کیا ۔سب سے پہلے کالج کے آداب کے بارے میں بتایا گیا
جیسے ہی گفتگو ختم ہوی استاد نے میری ترف اشارہ کیا ۔اور مجھے اپنے پاس بلایا۔میں نے دل میں سوچا اللہ خیر کرے۔استاد نے کہا کہ جاو ساتھ والی کلاس سے مارکر لے کر آو۔میں اس کلاس کے اندر بغیر اجازت کے داخل ہو گیا۔میں نےجاکر استاد سے کھا سر مجھے مارکر چاہے ۔وہ مجھ سے کہنے لگے کہ تمہے اندر آنے کی اجازت کس نے دی۔کیا تمہے کسی نے بتایا نہی کہ اندر آنے سے پہلے اجازت لینی چاہے۔میں دل میں سوچ رہا تھا کہ سر کیا بتاو ۔پھر انھوں نے مجھے مارکر دی۔میں سوچ رہا تھا کہ سر کو مجھے آداب کے بارے میں بتانا چاہے تھا پھر میں کلاس میں جاکر بیتھ گیا ۔یہ تھی میری زندگی کی کہانی
لکھنے والے کا نام کاشف نعیم