کیاآپ اہرام مصرکی تاریخ جانتے ہیں؟
یہ مخروطی شکل کے مقبرے ہیں کہ جنہیں اہرام مصرکہاجاتا ہےان تعمیرات کا شمار،انسان کی قدیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے.سبھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فراعین مصر کی قبریں ہیں.جن میں شاہی خاندان کے لوگ دفن ہیں.دنیا کے سات عجوبوں میں سےیہ واحد ہیں جو ابھی تک بہترین حالت میں ہیں.
ماہرین آثار قدیمہ کےمطابق،مصر میں دریافت کئے گئےاہرام کی کل تعداد138 ہے جنھیں آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تعمیر کیا گیاان میں سے اھم ترین،مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے باہر غزہ کےمقام پر واقع ہیں ان میں سے تین اہرام،خوفو،خافرااورمینکاور کا شمار دنیا کے قدیم ترین عجائبات میں ہوتاہےآج ہمارا موضوع، سب سے بڑااہرام خوفوکامقبرہ ہے جسے بادشاہ چوبیس کامقبرہ بھی کہاجاتاہے ان اہرام کا مقصد بادشاہوں کی ممیوں(حنوط شدہ لاشوں)کو سنبھال کر رکھناتھا تاکہ آخرت کے سفر میں انکے درجات بلند ھوں اورجب یہ،دوبارہ زندہ ھوں تو انکے جسم بھی سلامت ھوں ان حنوط شدہ ممیوں کے ساتھ ساتھ انکے غلاموں،کنیزوں اوراسکی استمال شدہ سب چیزوں کو بھی ساتھ ہی دفن کر دیا جاتا تھا
بہت سا سونا چاندی اورجواہرات بھی تاکہ آخرت اچھی ھواورنئی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہ ھواس وقت بھی عام آدمی کا پرسان حال کوئی نہیں تھااور نہ آج ہی یہ عام آدمی اپنی صحیح قدرو قیمت سے آگاہ ہے.اس وقت کے مصریوں کا یہ مذھب ھواکرتا تھا کہ ارواح کبھی نہیں مرتیں اورایک طویل مدت کے بعد،واپس جسم میں آجاتی ہیں اس مذھب کے ماننے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی.تمام اہرام میں سے، سب سے بلند اہرام خوفو کاہےجو455 فیٹ بلند ہے.اسکا رقبہ13ایکڑ پر پھیلا ھوا ہے اسکی تعمیر میں25 لاکھ چوناپتھر کے بلاکس استمال کئے گئے ہیں اوران بلاکس میں سے اکثریت کا وزن،25 سے 80 ٹن کے قریب ہے انکی تعمیر اتنی بہترین کی گئی ہے کہ آج کی سائنس بھی ایسایادگاراہرام نہیں بنا سکتی مطلب یہ فنی مہارت کا اعلی ترین نمونہ ہے
ان بلاکس کا وزن5.9ملین ٹن تک ھو سکتا ہے اور اسکی تعمیر میں20سال سے زائد کا وقت لگا ایک دن میں800ٹن پتھر لگایا گیا، مطلب12سے13 بڑے پتھر ہر روز اپنی جگہ فٹ کئے گے مصر کے اس عظیم اہرام کی تعمیر کو لیکر ، بہت سے سوالات ذھن میں آتے ہیں کہ جب کرین اور بڑی تعمیراتی مشنری نہیں تھی تو یہ کیسے بنالئے گئے.مصری ہسٹری کے مطابق، یہ پتھر800 کلومیٹر دور سے لائے گئےاور ایک لمبی ترین نہر کھود کر،اور پھر جانوروں کے چمڑوں میں ھوا بھر کر ،انکو پانی کے اوپر تیرا کر،غزہ تک لایا گیااس بات میں800کلومیٹر کا فاصلہ زیر غور رکھیں اور ماضی کی مشکلات کو بھی ذہن میں رکھیں تو یہ ایک ناممکن سا کام تھاجو انسانی ذہانت نے کر دکھایا
.
مکمل تعمیر کے بعد،اسکے اوپر سفید چمکدار پتھر لگایا گیا جو1300قبل مسیح میں، زلزلہ آنے سے اکھڑ کرگر گیااور سلطان ناصر الدین الحسن کے عہد میں اس پتھر سے چھوٹا سا قلعہ اور ایک مسجد بنوا لی گئی اہرام کی تعمیر میں ایک لاکھ سے ذائد ہنر مندوں نے کام کیاان ہنر مندوں کاکام اتنا عمدہ ہے کہ آج بھی،دو پتھروں کی درمیانی درز میں پلاسٹک کابینک کارڈ داخل کرنا دشوارہےاور ہر بلاک اپنی پوزیشن میں درست تراش کر لگایا گیا ہے کہا جاتا ہے کہ زمانے کے آگے ہر چیز کو فنا ہے اور اہرام وہ ہیں کہ جہاں،زمانہ بھی ہیچ ہے.ماضی کو جان کر،حال میں جئیں اوروہ بھی زندہ قوموں کی طرح کہ یہی عین حق بھی ہے.