ٹرمپ کا جیتنا کیوں ضروری تھا ؟
#Why was it necessary for Trump to win?
ڈونلڈ ٹرمپ شاید جدید دنیا کا واحدحکمران ہے جس نے اپنی انتخابی مہم میں دنیا بلخصوص امریکی عوام سے کیے گئے وعدے چار سال کی مختصر مدت میں ممکن حد تک پورے کیے ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں دنیا بھر میں جاری امریکی جنگیں ختم کر دوں گا، افواج واپس بلا لوں گا۔ تو آپ نے شام، عراق اور لیبیا سے بڑے پیمانے پر افواج میں کمی اور افغانستان سے مختصر مدت میں مکمل انخلا پر پہلی بار امریکی قیادت کو سنجیدہ پایا اور مذاکرات کو پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھا جس کی بدولت امریکی فوج کی واپسی اور طالبان قیدیوں کی رہائی شروع ہے تاریخ گواہ ہے کہ سابقہ حکمرانوں کے دور میں جب بھی طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی ملاقات سے واپسی پر لوکیشن ٹریس کر کے شہید کر دیا جاتاہے آپ ٹرمپ کی سنجیدگی ملاحظہ فرمائیں اس نے یہاں تک اعلان کردیا تھا کہ میں طالبان کو مذاکرات کے لیے آنے والے تمام اخراجات ادا کرنے کو تیار ہوں مگر کانگرس آڑے آگئی۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم میں کچھ ممالک کے شہریوں کو امریکہ داخلے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جن میں زیادہ تر اسلامی ممالک تھے اور اس نے اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی لیبیا، شام اور عراق وغیرہ کے شہریوں پر پابندی لگا دی تھی۔ امریکہ ٹرمپ کا ہے وہ جس کو چاہے اپنے ملک آنے کی اجازت دے جس کو چاہے نہ دے مگر افسوس اس بات پرکہ ان ممالک میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ جوابی پابندی ہی لگا دیتے۔ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں امریکہ اور میکسیکو کے لوگوں کے درمیان سرحد پر دیوار کھڑی کردوں گا اور اس نے یہ کر دیکھایا سرحد کی خلاف ورزی کرنے پر ماؤں سے شیر خوار بچے چھین لیے گئے، بظاہر یہ غیر انسانی سلوک نظر آتا ہے مگر امریکہ ٹرمپ کا گھر ہے اور گھر کے سربراہ کی مرضی جس کو چاہے گھر آنے دے اور کو جس کو چاہے نہ آنے دے آپ کو یاد ہو گا کہ چند سال قبل پاکستان نے امریکہ کو افغان جنگ میں “Do More” کے جواب میں “No More” کہ دیا تھا، ایسا اس لیے ہرگز نہیں تھاکہ پاکستانی قیادت نے امریکی جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا یا امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا شروع کر دی تھیں بلکہ یہ بھی مسٹر ٹرمپ ہی کی مہربانی تھی جس نے پاکستان کی دفاعی امداد بند کردی اور ہم امریکی جنگ سے باہر آئے جس کی بدولت تقریباََ پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہو چکا ہے
ترقی پذیرممالک کی حکومتیں ہمیشہ سے ترقی یافتہ ممالک کی مرہونِ منت رہی ہیں مگر کبھی ممالک کے درمیان طعنہ زنی نہیں کی گئی کہ تمہاری حکومت ہمارے تعاون سے چل رہی ہے، مگر یہ سچ کہنے کی جرات صرف ٹرمپ میں ہی تھی آپ اس کو بچگانہ حرکت کہیں یا دل کی شفافیت اس نے عربوں کو دوٹوک انداز میں کہ دیا کہ تمہاری حکومت ہمارے تعاون کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی اگر ترکی آج دنیا کی چند بڑی معاشی طاقتوں میں سے ایک ہے جو کہ 2023ء تک پانچویں بڑی معاشی طاقت ہوگا،اس کا کریڈٹ بھی بڑی حد تک ٹرمپ ہی کو جاتا ہے جس نے ترک معیشت کو شدید جھٹکا دیا تھا جس سے ترکوں نے سبق سیکھا اور سنبھل گئے۔ جس کی بدولت انہوں نے جنگی ڈرون اور طیارہ سازی کی صنعت میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنا بظاہر ایک غاصبانہ عمل قرار دیا جاتا ہے مگر ہم اس کا قانونی پس منظر کیسے بھول سکتے ہیں کہ ٹرمپ کا کردارصرف قانون پر عمل درامد کی حد تک ہی ہے جو کہ بظاہر مسلمان دوست امریکی حکمران اس تبدیلی کو سینٹ سے قرارداد کے ذریعے امریکی آئین کا حصہ بنا چکے تھے کہ ایک سال کے اندر اندر امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت القدس منتقل کر لے گا مگر ساتھ ہی امریکی آئین کے خالقوں نے صدر کو یہ صوابدید اختیار بھی دے دیاتھا کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگلے سال تک موخر کر سکتا ہے یہی وجہ تھی کہ سابقہ حکمران منافقت و بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارت خانے کی منتقلی کو تاخیر کا شکارکرتے رہے قابل غور پہلویہ کہ اگرڈیموکریٹک پارٹی سے نامزد صدور اتنے ہی مسلمان اور اسلام کے خیر خواہ تھے اگران کو فلسطینوں کے حقوق کا اتنا ہی خیا ل تھا تو اس تبدیلی کو آئین کا حصہ ہی کیوں بنایا تھا؟کلنٹن،ابامہ اتنے ہی اچھے تھے جتنے سمجھے جاتے ہیں تو اس قراداد کے خلاف نئی قرارداد پاس کروا کر اس مسلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے جڑ سے اکھاڑ کیوں نہیں پھینکا۔
اگر ہم ٹرمپ اور سابقہ دو تین حکمرانوں کا مسلمانوں کے حوالے سے پالیسی پر غور کریں تو ٹرمپ کا دور مسلمانوں کے لیے شاندار دور رہا ہے کیا یہ چھوٹی بات ہے کہ کئی دہائیوں بعد ایسا حکمران سامنا آیا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں دنیا بلخصوص اسلامی دنیا کو کسی نئی جنگ میں نہیں جھونکا ورنہ بش تھا تو القاعدہ وطالبان پیدا کر دیے گئے اور مسلمان کے گھر میں آنکھ کھولنے والا براک “حسین’ ابامہ آیا تو داعش کو سامنے لایا گیا جس کی آڑ میں شام، عراق، لیبیا اور افغانستان کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا اور ہماری غلامی کاعالم یہ کہ ہم منہ میں رام رام اور بغل میں چھری چھپائے کو اپنا ہمدارد اور مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں اور دل کی شفافیت سے اقدام کرنے والے کو دشمن تصور کر لیتے ہیں اس میں ٹرمپ کا کیا قصور ہماری فطرت ہی کچھ اس طرح بن چکی ہے کہ ہم دھوکا کھائیے بغیر شاید زندہ ہی نہیں رہ سکتے اگر ہم اتنے ہی غیر مند ہوتے جتنے دیکھائی دیتے ہیں تو جوابی کاروائی کرتے تمام مسلم ریاستیں فلسطینوں کے ساتھ کھڑے ہوتی میں سمجھتا ہوں ٹرمپ کا یہ اقدام سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگانے کے لیے کافی تھا مگر ہم اس قدر غفلت کا شکار ہوچکے ہیں چند دن شور کیا اور بھول گئے اقبال ؒنے شاید ایسی ہی قوموں کے فرمایاتھا غلامی میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیرں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ٹرمپ کی شکت کے ساتھ ہی کچھ پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ٹرمپ برسراقتدار میں آئے یا جوبائیڈن پاکستان کے لیے ان کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آنے والا پالیسی تو اسٹیبلشمنٹ کی ہی چلنی ہے وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں امریکی صدر اقتدار سنبھالتے ساتھ ہی چار ہزار سے زائد ا فسران کو تبدیل کرتا جن ISI کا چیف، آرمی چیف، تمام سفارتکاراور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی افیسر کو بدل سکتا ہے اور آپ نے دیکھا کہ ٹرمپ نے اپنے چار سالوں میں وائٹ ہاوس میں کئی تبدیلیاں کی ہیں یہی ہے امریکی اسٹیبلشمنٹ جو صدر چاہے پھر وہی ہے پالیسی جو صدر چاہے
ٹرمپ کی شکت کے ساتھ ہی مسلہ کشمیر بھی پس پشت چلا گیا کیوں کہ اس کی ثالثی کی پیشکش کے نتیجے میں ہم بھارتی آئین میں تبدیلی پر خاموش رہے شاید ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم سے کوئی بڑا عدہ کر رکھا تھا اسی لیے خان صاحب ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کہا کرتے تھے مجھے اتنی بڑی کامیابی ملی ہے جتنی کہ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ملی تھی ٹرمپ کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا دوسرا ورلڈکپ بھی چکنا چور ہو گیا
چلیں اب جوبائیڈن کی خلافت سے فیض یاب ہو