سپریم کورٹ میں صدر مملکت نے سینیٹ کے انتخابات بذریعہ اوپن بیلٹ کرانے کیلئے دائر ریفرنس میں رائے مانگ رکھی ہے، اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جمع کرائے 12صفحات پر مشتمل جواب میں سینیٹ کے اوپن بیلٹ انتخا ب کو خلا فِ آئین قرار دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے آرٹیکل226 وا ضح ہے صرف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا انتخاب شو آف ہینڈ ہی ہوتا ہے ،
آئین کے آرٹیکل 59، 219 اور224 میں سینیٹ انتخابات خفیہ طریقے سے ہوتے ہیں۔ خفیہ بیلٹ ختم کرنے کےلئے آئینی ترمیم کرنا ہو گی۔اوپن بیلٹ معاملہ اور سندھ حکومت صوبہ سندھ حکومت نے بھی بذریعہ اوپن بیلٹ سینیٹ انتخابات کرانے کی مخالفت کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں آئندہ ہفتے اپنا جواب جمع کر انے کا اعلان کیا ہے،یاد رہے قبل ازیںپنجاب اور سندھ کی حکومتیں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا چکی ہیں اور دونوں حکومتوں نے اوپن بیلٹ کی حمایت کی۔ ایوان بالا انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی تاریخ سینیٹ کا ادارہ73ءکے آئین کے تحت وجود میں آیا تھا جب دو ایوانی مقننہ قائم ہوئی، پارلیمینٹ ان دونوں ایوانوں کو ملا کر وجود میں آتی ہے تب سے اب تک، اس عرصے کو چھوڑ کر جب آئین معطل اور پارلیمینٹ کا وجود نہیں تھا،میں بھی سینیٹ انتخابات خفیہ را ئے شمار ی سے ہوئے،نصف صدی سے کچھ کم عرصے میں خفیہ رائے شماری ختم کرنے کی بات گزشتہ سینیٹ انتخابات مارچ 2018ءکے وقت شروع ہوئی جب یہ الزام سامنے آیا کہ ووٹرز (ارکانِ صوبائی اسمبلی) نے امیدواروں سے پیسے لے کر ووٹ دیئے۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی دھیمے سروں میں یہ الزام لگتا رہتا تھا، لیکن انتخاب گزرتے ہی بات آئی گئی ہو جاتی، اگر کسی نے ووٹ خرید کر بھی سینیٹ کی رکنیت حاصل کی ہوتی تھی تو اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔
خفیہ رائے شماری ختم کرنے کی وجہ پچھلے انتخابات میں جب خیبرپختونخوا اسمبلی کے نتائج میں اَپ سیٹ دیکھنے میں آیا تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان جواب بھی وزیراعظم ہیں ، نے اپنی جماعت کے کئی ارکان پر پارٹی پالیسی سے انحراف اور پیسے کے عوض ووٹ بیچنے کا نہ صرف الزام لگایا ،بلکہ بہت سے ارکان کو جن میں خواتین ارکان بھی شامل تھیں پارٹی سے نکال دیا ، یہ ارکان عدالتوں میں چلے گئے ،جہاں کسی پر بھی الزام ثابت نہ ہوسکا، سب سے زیادہ دلچسپ صورتِحال پنجا ب میں پیدا ہوئی جہاں اسوقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کو اپنی عددی حیثیت سے ایک نشست کم ملی جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار چودھری محمد سرورجو اب گورنر پنجاب ہیں سب سے زیادہ ووٹ لے گئے،یہ ووٹ انہوں نے کیسے حاصل کئے ؟آج تک ایک معمہ ہے۔عمران خان کا اعلان خریدو فروخت کے اس کھیل کا منتخب لوگوں پر تو کوئی اثر نہ پڑا،لیکن ووٹرز نکتہ چینی کا خصوصی ہدف بن گئے، عمران خان نے اعلا ن کیا آ ئند ہ انتخابات خفیہ رائے شماری نہیں بذریعہ شو آف ہینڈ ہونگے، پھر کسی سیانے نے اُنہیں بتایا سینیٹ کا انتخاب متناسب ووٹ کے طریقے سے ہو تا ہے جس کے بعد نئی ترکیب ”اوپن بیلٹ“ سامنے آئی۔پی ڈی ایم حکومت گرانے کے درپےسیدھا طریقہ تو یہ تھا آئینی تر میم کر لی جاتی،لیکن یہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا،کیونکہ حکومت کو کسی بھی ایوا ن میں دو تہائی اکثریت نہ ہی ترمیم کےلئے حزب اختلاف کی جماعتوں کا تعاون حاصل ہے،
کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک چلارہاہے، ایسے میں حکومت نے پارلیمینٹ کی بجائے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں معاملہ زیر سماعت ہے اور فاضل عدالت نے صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتوں و دیگر سٹیک ہولڈرز کی رائے طلب کر رکھی ہے جو سا منے آ رہی ہے اس کے بعد سپریم کورٹ اپنی رائے دےگی۔حکومت کا استدلال ، آئین ا ور قانون میں فرقحکومت کا بنیادی استدلال ہے سینیٹ انتخاب آئین نہیں قانون کے تحت ہوتا ہے جس میں ترمیم کر کے اوپن بیلٹ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ، تاہم یہ سوال اپنی جگہ ہے کیا کوئی ایسا قانون بن سکتا ہے جو آئین کی منشا کے مطا بق نہ ہو؟، سپریم کورٹ اگر یہ رائے دےدے توتب تو ایسا ممکن ہے بصورت دیگر آئین میں ترمیم لازمی ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے معاملہ اسی طرح پارلیمینٹ بھجوا دیا، جس طرح آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر کیا تھا تو پھر بھی فیصلہ پارلیمینٹ ہی کو کرنا ہو گا، جہاں تک ووٹوں کی خرید و وفروخت کا تعلق ہے یہ صرف سینیٹ ہی نہیں دیگرانتخابات میں ہوتا ہے تو کیا وہ بھی اسی طرح ” اوپن “ کرنے پر غور ہو گا؟