Skip to content

ڈوز بڑھا دیں بس

*ڈوز بڑھا دیں بس!!!*

اگر آپ کی آنکھوں کے سامنے کوئی شخص پل پر سے کود کر جان دینے والا ہے، خودکشی کرنے والا ہے تو اسے روکنے کے لیے آپ کیا کریں گے /گی؟

یہ تین سال پہلے کا واقعہ ہے، جب میں نے یہ خبر پڑھی اور تب سے یہ میری یادداشت سے چپک گئی ہے. اس واقعے نے میرے اوپر ایک گہرا نقش چھوڑا، جس کا ذکر میں آگے جا کر کروں گا.

گولڈرز گرین لندن کے شمال میں ایک ریلوے اسٹیشن ہے. لندن کے اکثر اسٹیشنز کے باہر ایک “فٹ برج” بنا ہوتا ہے، جسے مسافر سڑک کے دوسرے حصے کی طرف جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں. عموماً اس پر صبح اور شام کے اوقات میں بہت رش ہوتا ہے. شام پانچ بجے کے قریب جینز پہنے ہوئے ایک نوجوان پل کے اوپر چڑھا اور اس کے تقریباً درمیان میں پہنچ کر وہ چھلانگ مار کر لیج ( قدرے باہر نکلے ہوئے پھٹے) پر پاؤں جما کر کھڑا ہوگیا. نیچے سے ٹریفک کا اژدہا مصروف سڑک پر سے گزر رہا تھا.

نوجوان نے چیخ کر دو تین گالیاں دیں اور کہا کہ وہ زندگی سے تنگ ہے کہ وہ جینے کے قابل نہیں اور اب وہ بس مرنا چاہتا ہے. اس سے قبل کہ وہ سڑک پر کود کر جان دے دیتا، ایک درمیانی عمر کا سیاہ فام لپک کر اس کی طرف پہنچا اور اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس سے باتیں شروع کردیں. پھر ایک مصروف دن گزار کر گھر کی طرف لپکنے والا بزنس مین آ پہنچا، ساتھ ہی ایک حجاب والی ڈاکٹر گزرتے گزرتے رک گئی. بس ایک ہجوم سا جمع ہوگیا، اور سب کی ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح موت کے خواہش مند شخص کو بچا لیا جائے.

باتوں باتوں میں لوگوں کو محسوس ہوا کہ شاید خودکشی کا خواہش مند ڈیپریشن کا شکار ہے اور شاید ذہنی توازن کھو چکا ہے اور کسی بھی لمحے وہ کود جائے گا. اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور اس کا سانس اکھڑ رہا تھا. اایک شخص نے اس کی جینز کی بیلٹ کو مضبوطی سے پکڑ لیا ،ایک اور شخص نے اپنے لیپ ٹاپ کے بیگ کی بیلٹ نکالی اور اس کی ٹانگوں کے گرد لپیٹ کر کس کے باندھ دی. ایک پروفیسرانہ شکل والے عینک پہنے ہوئے آدمی نے اپنی بانہوں کا ہالہ بنا کر اس کی گردن کے گرد کس دیا. پھر بھی لگا کہ وہ نیچے گر سکتا ہے تو پہلے ایک لڑکی نے اور پھر ایک مضبوط ساخت والے نوجوان نے سلاخوں کے اندر سے ہاتھ گھسا کر اس کی ٹانگوں کے گرد کس دیے.

میں اس تصویر کو دیکھتا ہوں، آپ بھی دیکھیں اور میری آنکھوں میں نمی سی پھیل جاتی ہے. لوگوں کا جذبہ دیکھیں، ان کا پیار دیکھیں، ان کی نیت دیکھیں، اس چھوٹی سی تصویر میں سب باتصویر نظر آرہا ہے. وہ نوجوان کسی کا کچھ نہیں لگتا تھا مگر سب کی گرفت میں رشتہ تھا، اپنائیت تھی.

خبر پھیل گئی اور پولیس آن پہنچی. پھر ایک جاں گسل جدوجہد کے بعد نوجوان کو ایک کرین کے ذریعے نیچے اتار لیا گیا اور ایمبولینس میں ہسپتال روانہ کردیا گیا.

اس سارے عمل میں دو گھنٹے لگے، اس کی جان بچانے کے لیے چھ، سات لوگ دو گھنٹے تک اس کے ساتھ لٹکتے رہے اور انہوں نے اس کی زندگی بچا لی.

میں نے اس تصویر سے دو سبق سیکھے. ایک تو یہ کہ میں نے لوگوں کو جج کرنا چھوڑ دیا، چاہے وہ طعنے ماریں، گالیاں دیں یا آوازیں کسیں. میں نے یہ جانا کہ ہمارے ارد گرد موجود ہر شخص ہماری طرح سفر میں ہے، لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہ اس سفر میں کس سیڑھی پر ہے، کس محاذ پر ہے اور اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے. لوگ جب آپ کے ساتھ غصے، نفرت، بیزاری یا اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہےہوتے ہیں، وہ جذبات ان کے اسی سفر کی موجودہ شدت کی عکاس ہوتے ہیں. اس لیے میں ان کے ساتھ نہیں الجھتا اور کوشش کرتا ہوں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ بات کم سے کم ردعمل عمل کے ساتھ سن لی جائے.

دوسرا سبق میں نے یہ سیکھا کہ لوگوں کی قدر ان کی زندگی میں، ان کے ہوتے ہوئے کر لینی چاہیے. میں نے تصور کیا کہ اگر میرا ناپسندیدہ ترین کوئی بھی شخص اگر اس پل پر کھڑے ہوکر ایسی ہی چھلانگ مارنے لگتا تو میں اسی طرح اس کی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں اور بانہوں کا شکنجہ کس لیتا اور اسے نیچے نہ گرنے دیتا. مجھے لگتا ہے کہ آپ پڑھنے والوں میں سے بھی اکثر ایسا ہی کریں گے. یہ تصویر اس ضمن میں ایک شاندار ریمائنڈر ہے. کیا آپ “اس شخص” کو کود کرنے مرنے دیں گے /گی یا اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر اس بچانا چاہیں گے /گی؟ اگر آپ کے ذہن میں اسے بچانے کا خیال آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے درمیان جو کُچھ جتنا بھی برا ہے، وہ حل ہوسکتا ہے.

اگرچہ ہم کسی کو اس طرح بے کسی کے عالم میں مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تو کیا ہی اچھا ہو ہم اپنی برداشت کو تھوڑا سابڑھا لیں، لہجے کو نرم کر لیں اور کوڑے کو اپنے کاندھے سے اتار کر اپنے تھیلے میں ڈال لیں. کیا ہی اچھا ہو کہ ہم لوگوں کی زندگیوں میں ہی ان کے کاندھوں اور پاؤں کے گرد ایک محبت کا شکنجہ کس دیں، اس سے پہلے کہ انہیں کسی پل کے کنارے پر کھڑا ہونا پڑے. وہ کیا کہتے ہیں کہ ساری بیماریوں کا علاج محبت ہی ہے، سارے مسئلے محبت کے مسئلے ہیں، اگر مریض کو افاقہ نہیں ہورہا تو بس ڈوز بڑھا دینی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *