محمد بن قاسم کی مہم کا آغاز712 عیسوی کے آس پاس ہوتا ہے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو سندھ کی طرف ہی کیوں بھیجا گیا؟تاریخ کی کتابوں میں اس کا جواب صرف یہی ملتا ہے کہ راجہ داہر نے عربوں کی کچھ کشتیاں لوٹ لی تھیں اور اس کے جواب میں اس مہم کا آغاز ہوا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ غزوہ ہند کی اس پہلی مہم کا نقطہءآغاز تو یہ ضرور بنا مگر اس مہم کیلے حالات بہت طویل عرصے سے تیار ہو رہےتھے۔خلافت اسلامیہ نے ایرانی سلطنت فتح کر کے اسکے جن صوبوں پر قبضہ کیا،ان کی سرحدیں براہ راست ہند اور چینی سلطنت کے ساتھ ملتی تھیں۔ ایرانی سلطنت کے شاہی خاندان کے تمام افراد،فوج کے اعلیٰ افسران اور ان کے کچھ فوجی دستے مسلمانوں سے شکست کھا کر چین چلے گئے تھے۔ہندوستان کے راجے مہاراجے بھی درپردہ مسلمانوں کے خلاف ایرانی سلطنت کی مدد کر رہے تھے۔علاوہ ازیں مملکت اسلامیہ کے اندر بھی بغاوتیں برپا ہو رہی تھیں،مثلا خارجیوں کا فتنہ۔کہ جس کے خلاف حضرت علی کے وقت سے ہی مسلمان حکمران برسر پیکار تھے۔خود حضرت علی کو بھی ایک خارجی نے شہید کیا۔گو کہ حضرت علی نے خوارج کے خلاف کئی جنگیں لڑی تھیں،مگر پھر بھی ان کا فتنہ باقی رہا۔چند دہایئوں کے بعد حجاج بن یوسف کو بھی خراساں میں خارجیوں کے خلاف ایک بڑی جنگی کاروائی کرناپڑی۔خارجیوں کی بھی ایک بڑی تعدادسلطنت ہند سے مدد لینے کیلے بلوچستان اور مکران کی طرف سفر کر رہی تھی۔خوارج کی ایک نشانی حدیث مبارکہ میں یہ بھی بتائی گئی کہ ہند کے مشرکوں سے مدد لے کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں گے!
حجاج بن یوسف کے دور میں مسلمان مشرق میں پوری ایرانی سلطنت پر قابض ہو چکے تھے۔ شمال میں بازنطینی سلطنت کے ساتھ ان کا تصادم جاری تھا،جبکہ عراق تک تمام سرحدیں مسلمانوں کے پاس تھیں اور بازنطینی سلطنت کے پاس صرف موجودہ ترکی ہی باقی رہ گیا تھا۔ شمالی افریقہ کے بعد اسپین بھی جلد مسلمانوں کے قبضے میں آنے والا تھا۔جزیرہ نما عرب کے ایک جانب خلیج فارس،دوسری طرف بحیرہ احمر اور تیسری جانب بحیرہ عرب واقع ہے۔عربوں کے اسلام لانے سے پھلے بھی ان کے تجارتی بحری جہاز سلیون،مالدیپ اور چین کی جنوبی بندرگاہ کینٹون تک جایا کرتے تھے۔شایراہ ریشم کہ جو چین سے چلا کرتی تھی اس کا تجارتی مال یمن تک بحری جہازوں کے ذریعے لایا جاتااور پھر یہاں سے قریش اور دیگر عرب قبائل مال لیکر شام اور یورپ تک جایا کرتے تھے۔
Thursday 10th October 2024 7:29 pm