ملکی وغیر ملکی اسٹیبلشمنٹ بہت متحرک انداز سے سامنے آ رہی ہے اور خوفناک منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔جس کا سب سے بڑا نقصان مذھبی طبقے کو ہو گا۔اور مذھبی سیاست کو نیست و نابود کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو نہ مولانا فضل الرحمن ایوان میں قبول ہے،نہ شیرانی صاحب اور نہ مولوی عبدالقادر لونی اور نہ کوئ اور مولوی صاحب۔فرض کر لیں کہ ان میں سے کوئ اسمبلی پہنچے گا تو وہاں اسلامی اقدار کی بات کرے گا اور وہ داڑھی،پگڑی اور کرتا قمیص میں ملبوس ہو گا۔یہ چیزیں ان کو ناقابل قبول ہے۔
مگر وہ ہر ایک کو اتنی لالچ دے گا کہ آئندہ کل تمام سیٹیں آپ کی ہو گی۔اس طرح اس کو سرگرم رکھا جائے گا۔مگر جب کل آئے گا تو نہ وہ اسمبلی پہنچے گا اور نہ کوئ دوسرا۔اس طرح مذھبی ووٹ کو تقسیم کر کے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔اب طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی اور طریقے سے مذھبی سیاست اور طبقے کو روک نہیں سکتے تو ان کے مابین اختلافات کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے،تاکہ عام مسلمان مولوی کے نام سے ہی بیزار رہے اور وہ سمجھ جائے کہ مولویوں کا آپس میں ایک بات ایک دین پر اتفاق نہیں تو ہم کس کی پیروی کریں۔پہلے سنی،شیعہ اور دیوبندی ،بریلوی کا اختلاف تھا۔اب دیوبندی اور پھر ایک ہی جماعت میں پروان چڑھنے والے دست بگریبان ہیں۔اس طرح خفیہ مشینری میڈیا کی طاقت سے ان باتوں کو اتنی ہائ لائٹ کریں کہ مذھبی سیاست کو ناسور قرار دیا جائے اور مولوی کو پھر محصور کیا جائے۔
سمرقند وبخارا،ترکی اور دوسرے اسلامی ملکوں میں یہی صورتحال بنائ گئ یا بنی۔اختلاف دراختلاف تھا۔عام مسلمان انہی اختلافات میں مشغول ومصروف رہے۔ادھر دشمن اچانک آدھمکا۔پھر مسائل نہ رہے کیونکہ اس کو ڈسکس کرنے والے صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے۔عیسائ دنیا میں بھی یہی ہوا۔مذھبی پیشواؤں نے باہمی جھگڑے اور غلط پیشنگوئیوں سے عام انسان کے ذہن کو خلط ملط کر دیا۔جس کی وجہ سے مذھبی پیشوا کا سیاسی معاملات میں مداخلت مکمل بین کیا گیا اور ویٹی کن سٹی کو متبرک سمجھ کر صرف اس کی دعا لی جاتی رہی۔
اس پوسٹ کے توسط سے ہر مذھبی،باشعور رہنما وکارکن سے استدعا ہے کہ خدارا اس چیز کو سمجھیں۔اپنے کل کو دیکھیں۔اپنی سیاسی پس منظر وپیش منظر کو دفن نہ ہونے دیں۔ان اختلافات کو مزید طول نہ دیں۔اس میں حد سے زیادہ سختی نہ دکھائیں۔خدا نہ کریں کہ کل ہم اور سب سیاسی کاز سے روک دئیے جائے۔