جاوید چوہدری کے بقول مولانا کا اسٹیبلشمنٹ سے پہلا ٹاکرا جنرل اسلم بیگ کے ساتھ پیش آیا۔جب مولانا صاحب نے اپنا وزن اور زور نوابزادہ نصراللہ خان کے پلڑے میں ڈالا۔
ملکی وغیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ مذھبی طبقات آپس میں الجھتے رہے اور ایک دوسرے سے جھگڑتے رہے۔تاکہ وہ کوئ قانون پاس نہ کروا سکے۔کیونکہ مضبوط دلیل ہمارے پاس ہو گی کہ ہم شیعہ کا اسلام نافذ کریں یا سنی کا۔دیوبندی کا یا پھر بریلوی کا۔مولانا صاحب نے ایم ایم اے بنا کر ان کے گیم کو بری طرح شکست سے دوچار کیا۔
پھر ایک لمبے عرصے سے پارٹی کے اندر مختلف ناموں اور مختلف دعووں کے ساتھ بعض لابیوں کو سرگرم کیے رکھا،کہ مولانا کسی اور طرح کنٹرول نہیں ہو سکتا تو اپنے لوگوں کے ذریعے دباؤ میں لا سکے۔آج سے پانچ مہینہ قبل شیرانی صاحب کی مجلس اور ان کی موجودگی میں کراچی واٹرپمپ کے محمود الحسینی نے مولانا پر سنگین الزامات لگائے۔اسی طرح آزادی مارچ کے دوران ڈان نیوز کو انٹریو دیتے ہوئے کھل کر کارکنان جمعیت کی محنت اور قربانی کا تمسخر اڑایا اور قائد جمعیت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسٹیبلشمنٹ مذھبی سیاست کو دفن اور مذھبی کارکن کو مایوس کرنا چاہتا ہے جبکہ مولانا صاحب اسی کاز کے لیے مسلسل لڑ رہے ہیں۔اگرچہ مولانا کا مدمقابل بڑا طاقتور اور سیاہ وسفید کا مالک ہے مگر مولانا کے پاس اخلاص،بے لوث وبے غرض کارکن اور ان کا اعتماد ہے۔اس گیم کا نتیجہ کیا ہو گا؟یہ کل پر چھوڑتے ہیں مگر اتنی بات ضرور یاد رکھیے کہ مولانا کی تاریخی کاوش اور جدوجہد کو تاریخ بڑے اچھے الفاظ سے یاد کرے گی اور جنہوں نے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر ان کی تحریک کو زک پہنچانے کی کوشش کی وہ آئندہ صفحات پر قابل ذکر نہیں ہوں گے۔
ایک عام مذھبی ورکر کی حیثیت سے اپنے دوستوں سے استدعا کرتا ہوں کہ بھلے کل ہم اور آپ کے نام کسی سرورق پر سرفہرست نہیں ہوں گے مگر اس قافلے کا حصہ بننا ہماری سب سے بڑی خوش قسمتی ہو گی۔
Thursday 7th November 2024 11:28 am