اولاد کے حقوق والدین کے فرائض ہوتے ہیں جو وہ با خوبی سرانجام دیتے ہیں۔ مگر کچھ معاملات میں بچے والدین کے اور والدین بچوں کے حقوق و فرائض میں غفلت برتتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد اور بدامنی جنم لیتی ہے۔ اس تحریر میں اولاد کے حقوق بیان کیے جائیں گے جو کہ والدین کے فرائض میں شامل ہیں۔ ایک فلاحی معاشرے کے لئے اولاد کے کے جو حقوق ہونے چائیے وہ یہ ہیں۔
اولاد کا پہلا حق ان کی اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے دنیا و مافیا کا علم نہیں ہوتا۔ اس معاشرے کا اس پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ اس لئے والدین کو چائیے اس کی اچھی تربیت کریں۔ باپ چونکہ اپنے بچوں کے لئے کماتا ہے اس لئے وہ گھر سے باہر ہوتا ہے۔ چناچہ یہ ذمہ داری ماں کی ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے کیوں کہ ماں کی گود اس کے بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ باپ، اپنے بچوں کے لیےکما کے لاتا ہے۔ خود دن بھر بھوکا رہ کر اولاد کے لئے شام کو گھر کھانا لاتا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے وقت بھی نکالنا باپ کے فرائض میں شامل ہے۔
اچھی تعلیم والدین کا دوسرا فرض ہے۔ والدین کو چائیے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے دینی اور دنیاوی تعلیم کا اہتمام کریں۔ دینی تعلیم بہتر ہے گھر میں دی جائیں کیونکہ اس کے بےشمار فوائد ہیں۔ بچوں کی دنیاوی تعلیم کی اہمیت یہ بھی ہے کہ بچے پڑھ لکھ کر ماں باپ اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔ والدین کو ہر ممکن کوشش کر کے اپنے بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جب کہ گاؤں میں زیادہ تر بچے سکولوں کی بجائے دکانوں و دیگر جگہوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بچوں سے محنت مزدوری کرانا سراسر غلط ہے۔ تعلیم سے ان کی اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے اور معاشرے میں ان کا اچھا مقام بھی بنتا ہے۔
اپنے بچوں کی مناسب جگہ شادی کرنا والدین کا تیسرا فرض ہے۔ اس میں والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی رائے کو بھی ملحوظ خاص رکھا جائے۔ بیشتر معاملات میں اولاد اپنی مرضی کرتی ہے اور کچھ معاملات میں والدین بچے کے لئے رشتے کا بندوبست کرتے ہیں۔ والدین کی مرضی کی بھی اہمیت ہے کیونکہ ان کو اس دنیا کا تجربہ ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی اولاد کے لئے اچھا ہی سوچتے ہیں۔ مگر اپنے اولاد سے رائے لینا سنت بھی ہے۔ ہمارے نبی پاک کا بھی یہی سلیقہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی رائے کی بھی اہمیت ہے۔
اسلام کی تعلیمات اور معاشرے کی بقا کے لئے اہم ہے کہ والدین اپنے بچوں کے حقوق اور اولاد اپنے والدین کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔ اس طرح حقوق فرائض کی ادائیگی سے معاشرے کی فضا خوشگوار ہوسکتی ہے اور ایک اچھے معاشرے کا قیام بھی ممکن ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات پر ہم سب کو عمل کرنا چائیے اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کی تلقین کرنا ہمارا فرض ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔