قومی زبان کا مقدمہ

In دیس پردیس کی خبریں
January 02, 2021

عطاءالرحمن چوہان
تحریک پاکستان اردو زبان میں چلائی گئی تھی اور بانیان پاکستان نے قیام پاکستان سے قبل یہ فیصلہ کردیا تھا کہ پاکستان کی قومی، سرکاری اور دفتری زبان اردو ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاس میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کو خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی اور اس موقع پر یہ تاریخ ساز فیصلہ بھی ہوا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔

قیام پاکستان کے بعد 25فروری 1948 کو قائد اعظم نے دیگر قائدین کی مشاورت سے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ اسی شام دستور ساز اسمبلی نے اس کی منظوری دی۔ اسی دوران مشرقی پاکستان سے اس فیصلے پرشکایات سامنے آئیں تو صحت کی خرابی اور دیگر ناگزیر وجوہات کے باوجود قائد اعظم ڈھاکہ تشریف لے گئے اور وہاں پوری قوت سے قومی زبان کا مقدمہ پیش کیا۔ آپ نے بہت واضح الفاظ میں فرمایا کہ “اگر ہم نے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ایک زبان اختیار کرنا ہوگی اور میری نظر میں وہ اردو ہے اور اردو کے سوا کچھ نہیں، اس معاملے میں جو آپ کوگمراہ کرے وہ پاکستان کادشمن ہے”۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو زندگی نے مہلت نہ دی اور پاکستان انگریزوں کے پالتو طابع آزماؤں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جنہوں نے قومی زبان سمیت تمام معاملات میں قائد اعظم کے تصورات کو پس پشت ڈال کر لوٹ مار کا بازار گرم رکھا۔ ملک کی پالیسیاں عوامی نمائندوں کے بجائے سول اور ملٹری نوکرشاہی بنانے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان عوام کی خواہشات کے بجائے نوکرشاہی کے مفادات کے مطابق چلایا گیا اور ہم پسماندگی کی بدترین صورت اختیار کرتے گئے۔ آج یہ وقت آن پہنچا کہ بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور بھارت تعلیمی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پر ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔

قومی زبان سے اعراض اور انگریزی کو اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ ہم انگریزی میں مہارت حاصل کرسکے اور نہ اردو سیکھ سکے۔ سالوں انگلش میڈیم سکولوں اور بیرون ملک کے اعلی علمی درس گاہوں سے فیض یاب ہوکر آنے والے بابو ایک صفحے کا خط لکھنے میں دس دن لگادیتے ہیں۔ ہمارے دفتری نظام میں محض یاددھانی کے لیے لکھا جانے والا خط ایک ہفتے کی مشق کے بعد جاری ہوتا ہے۔ ہمارے انجینیئروں سے کہیں زیادہ مہارت ہمارے مستریوں کے پاس ہوتی ہے۔ اسی بانچھ نظام سے نکلنے والے ڈاکٹر، انجنیئر اور سائنسدان کوئی ایک قابل ذکر ایجاد پیش نہیں کرسکے۔پاکستان کے موجودہ اور سابقہ تمام دساتیر میں اردو کو ہی قومی زبان قراردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 8ستمبر 2015 کو دستور کی شق 251کے تحت قومی زبان کو فوری نافذ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے باوجود ملک پرقابض اشرافیہ دستورشکنی میں کوئی عار محسوس نہیں کررہی۔ عدلیہ، سول وملٹری انتظامیہ اورسیاسی اشرافیہ خفیہ اشتراک سے انگریزی کے ناجائز تسلط کو دوام دے رہے ہیں۔ ان کے مفادات محفوظ رہیں تو نہ قائد کافرمان کوئی اہمیت رکھتا ہے، نہ دستور اور نہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل قرار پاتا ہے۔

قابض طبقے کی سینہ زوری کا اصل راز یہی ہے کہ قومی زبان کے لیے ملک میں کوئی موثر آواز موجود نہیں۔ عوام کی ترجمانی کرنے والی سیاسی جماعتوں پر اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ اکیلے جماعت اسلامی قومی زبان کا مقدمہ کررہی ہے، جس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ایسے حالات میں پاکستان کے اہل علم کا فرض ہے کہ وہ رائے عامہ کو قومی زبان کی پشت پر کھڑا کریں اور قوم کو انگریزی کے تسلط سے نجات دلوائیں۔تحریک نفاذ اردو پاکستان اسی مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے اور اس کا ملک گیر تنظیمی نیٹ ورک رائے عامہ کی بیداری اور اشرافیہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہی ہے