عاشق رسول کی کہانی (حضرت بلال حبشی)
اللہ سبحان و تعالی کچھ ایسے پاکیزہ بندوں کو چن لیتا ہے۔ جو اس کے حبیب سے عشق کرتے ہیں۔ کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ یہ عشق رسول عطیہ الہی ہے ۔ اللہ جسے عطا کرتا ہے۔ اسے زمانے کا سردار بنا دیتا ہے۔ایسی ہی داستان سیدنا بلال حبشی کی بھی ہے۔ اس عشق کی بدولت اللہ نے ایک غلام کو وہ عظمتیں اور عزتیں عطا فرمائیں۔کہ عشق رسول ان کی شناخت بن گیا۔
نام و نسب
حضرت بلال اپنے نسب کے اعتبار سے غلام تھے آپ کے والد کا نام روباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ آپ کے والد غلام تھے اور اسی غلامی میں سیدنا بلال مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اور آپ ان چند خوش نصیبوں میں شامل ہیں ۔جو آپ پر شروع میں ہی ایمان لے آئے۔
قبول اسلام
اسلام کے ابتدائی ایام تھے۔ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ سے دور ایک غار میں تشریف فرما تھے۔ سیدنا بلال ان پہاڑوں میں بکریاں چرا رہے تھے جب آپ وہاں سے گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار سے باہر آئے۔ اور فرمایا اے چرواہے کیا دودھ ہے۔ تو آپ نے عرض کیا میرے پاس ایک بکری میں دودھ ہے۔ آپ نے فرمایا لے کر آؤ حضرت بلال بکری لائے ۔آپ نے دودھ دو ہا ۔جی بھر کر پیا۔ پھر دوہاحضرت ابوبکر صدیق کو پلایا ۔پھر حضرت بلال کو پلایا۔ لیکن بکری کے تھن دودھ سے ابھی بھی بھرے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال کو اپنے پاس بلا کر فرمایا اے بلال میں اللہ کا رسول ہوں۔ تمہاری اسلام کے متعلق کیا رائے ہے؟ بلال تو پہلے ہی آپ سے متاثر ہو چکے تھے۔ آپ کا انداز گفتگو دیکھ کر انہوں نے فورا اسلام قبول کرلیا۔
ظلم و ستم
اس بات کا پتہ جب امیہ بن خلف کو چلا تو اس نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے۔ آپ کو تپتی زمین پر گھسیٹا جاتا۔ جلتے کوئلوں پر لٹایا جاتا۔ آپ کے جسم کی چربی پگھل کر کوئلے ٹھنڈے ہو جاتے لیکن آپ کلمہ حق کہنے سے باز نہ آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق یہ ہوتا دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے اپنے حکم سے حضرت بلال حبشی کو منہ مانگی رقم دے کر امیہ بن خلف سے آزاد کرا لیا ۔
اذان کی ابتدا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو اپنا خزانچی مقرر کیا ۔آپ حضرت محمد کے ساتھ ساتھ رہتے۔ جب اذان کا حکم آیا تو آپ نے حضرت بلال کو اس کام کے لئے مقرر کیا۔ حضرت بلال کی آواز سے مکہ کے درودیوار گونجنے لگے ۔جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے چلے گئے ۔تو ایک دن حضرت بلال ظہر کی اذان دے رہے تھے ۔کہ جب آپ نے کہا اشھدانا محمد تو آپ رونےلگے آپ کی آواز بند ہو گئی۔ اور آپ نے آذان دینا چھوڑ دی۔ اور قسم کھا لی کہ میں آئندہ کبھی اذان نہیں دوں گا۔ اور پھر حضرت ابوبکر صدیق سے اجازت لے کر ملک شام جہاد کے لیے چلے گئے۔ چھ ماہ بعد آپ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ملے اور فرمایا بلال یہ کیا بے وفائی ہے میرے شہر آنا ہی چھوڑ دیا ہے ۔رات آنکھ کھلی اونٹنی پر سوار ہوئے ۔راستے میں صرف پشاب اور نماز کے لیے کہیں نہیں روکے۔ساتویں دن مدینے پہنچے ۔اور ان کو یہ یاد ہی نہیں تھا کہ آپ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ایسا عشق سوار تھا کہ بھول ہی گئے۔ مدینے میں داخل ہوتے ہی نعرہ لگایا یا !رسول اللہ میں آگیا۔
جب ہجرے میں پہنچے تو یاد آیا تو رونے لگے۔ بہت روئے اور بولے یا رسول اللہ میں تو آ گیا آپ کہاں ہیں ۔پھرقبر پر گئے اور قبر سے چمٹ کر بہت روئے۔ روتے روتے گشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ نماز کا وقت آگیا۔ سب انتظار کرنے لگے کہ بلال اذان دے ۔لوگوں نے امام حسن اور امام حسین کو کہا کہ بلال سے اذان کا کہے ۔انہوں نے کہا چچا اذان دے۔تو حضرت بلال نے کہا میں نے قسم کھائی تھی لیکن میں تم دونوں کا کہا نہیں ڈال سکتا ۔میں قسم کا کفارہ دوں گا۔ آپ نے اذان دی تو مدینے کے درودیوار ایسے گونجے کہ مدینے کی عورتیں ننگے سر ننگے پاؤں گھروں سے نکل کر بھاگی اور ایسے لگا کے دور نبوت واپس آگیا ہو۔ اللہ تعالی ہمیں بھی سیدنا بلال جیسا عاشق بنائے اور ہمارا خاتمہ اسلام پر کرے۔