زندگی کے چار نظریات
اس دنیا میں انسان کے لے کوئی بھی نظریہ یا نظام کامیاب ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کائنات اور اس میں بنسے والے ہر جاندار کے متعلق کوئی تصور قائم نہ کیا جاۓ اس دنیا میں عقل اور شعور رکھنے والا صرف انسان ہے اگر ہم تجزیہ کرے تو انسان اور کائنات کے متعلق چار ہی نظریے قائم ہو سکتے ہے دنیا میں موجود تمام نظریات کی بنیاد انہی چار نظریات میں سے ایک پر قائم ہیں
پہلا نظریہ
اس نظریے کو ماننے والوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز پہاڑ ،دریا، سمندر وغیرہ ایک دھماکے کی وجہ سے قائم ہوۓ اور اس میں بسنے والا ہر جاندار صرف حادثاتی ہیںانسان وفات کے بعد کوئی زندگی نہیں رکھتا یہ سب ایک قدرتی عمل ہے جو صدیوں سے چلا آ رہا ہیں سائینسی طور پر اب یہ نظریہ بہت کمزور ہو چکا ہے
دوسرا نظریہ
اس کائنات کا نظام حادثاتی تو نہیں لیکن اس کا کوئی ایک خدا بھی نہیں بالکہ کئ خدا ہیں اس نظریہ کو ماننے والوں میں کبھی خداؤں کی تعداد پر اتفاق نہیں ہوا بالکہ خداؤں کی تعداد بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہیں اس نظریے کے فالورز جس چیز کو ہیبت ناک پاتے ہیں اس کو خدا تسلیم کر لیتے ہے مثلاً پانی، سورج ،آگ وغیرہ
تیسرا نظریہ
اس نظریے کے فالوورز کا خیال ہے کہ یہ دنیا ایک قید خانہ ہے اور انسان اس میں ایک قیدی کی حثیت رکھتا ہے اور جسمانی خواہشات ، رشتہ داریاں ، جذبات، احساسات ، وغیرہ اس قید خانے میں ملنے والی سزائیں ہیں اگر ہم نے اس تمام خواہشات پر قابو پانے کےلئے اپنے آپ کو مجاہدات و ریاضات کے ذریعے اتنی تکلفیں پہنچاۓ کہ روح پر اس کا تسلسل قائم نہ رہ سکے تو ہی نجات ممکن ہے-یہ نظریہ خود غیر تمدنی ہے لیکن اس تمدن پر اسںکے اثرات موجود ہیں مثلاًاشتراقیت، یوگ، تصوف، مسیحی رہبانیت وغیرہ
چوتھا نظریہ
یہ وہ نظریہ ہے جو انبیاء علیہ السلام لے کر آئیں یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک چلتا رہا اس نظریے کے مطابق یہ کائنات صرف ایک خدا کی تخلیق کردہ ہے وہ ہی اس کا مالک ہے اور ہم اس کے بندے ہیں اور ہماری نجات دنیا کے کاموں میں مشغول ہو کر اس خدا کے حکم کی فرمانبرداری سے ہی ممکن ہے-یہ نظریہ تمام نظریات پر حاوی اور دلائل کے لحاظ سے ناقابل شکست ہے