ہم نے بحیثیث قوم کبھی اپنی ترقی کی رفتار کا جائزہ نہیں لیا-نہ ہی کبھی ہم نے اس بات پہ غور کیا ہے کہ جس رفتار سے ہمارا ملک یا ہمارے علاقے ترقی کر رہے ہیں -وہ مناسب ہے یا ہمیں اپنی ترقی کی رفتار کو بڑھانا چاہیئے-میں اپنا نقطہءنظر سمجھانے کے لیے اپنے علاقے کی بات کروں تو نامناسب نہیں ہو گا کیوں کے اپنے علاقہ کو میں نے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ قریب سے دیکھا ہے
میرے علاقے کی ترقی کا سفر سن 1540 – 1557 کے درمیانی عرصے میں شروع ہوا جب شیر شاہ سوری نے میرےضلع میانوالی سےجی-ٹی روڈ گزاری-میانوالی کو ضلع کا درجہ سن 1901 میں دیا گیا –مغربی پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل امیر محمد خان جن کا تعلق مسلم لیگ سے تھا اور جو 12 اپریل 1960 سے18 ستمبر 1966 تک گورنر جنرل رہے بھی میانوالی کے سپوت تھے-موجودہ وزیرآعظم پاکستان عمران خان بھی میانوالی کے ہیں-مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا کوثر نیازی جو ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں تھے کا تعلق بھی میانوالی سے تھا- میرا ضلع میانوالی ایک پسماندہ ضلع ہے یہاں کے لوگوں کا پیشہ زمیندارہ ہے – یہاں کی زمینوں کی اوسط پیداوار اچھی ہے-بہترین زرعی زمینیں ہیں-جب کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ مال مویشی پالنا ہے-ابھی بھی وہاں کے لوگ چرواہے ہیں-اور میانوالی کے سفر میں روڈ کے دائیں بائیں لوگ آپ کو بھیڑ بکریاں چراتے ملیں گے-میرا تعلق میانوالی کی تحصیل لیاقت آباد سے ہےجو قائدِ ملت لیاقت علی خان کے نام سے منسوب ہے –لیاقت آباد کا پرانا نام پپلاں ہے-جو کہ ایک سایہ دار درخت پپل سے ما خوز کیا گیا ہے-پپلاں میں چندرگیت موریا کی جنم بھومی بھی ہے-
میانوالی میں دریائے سندھ بہتا ہے – یہاں دو بیراج ، جنا ح اور چشمہ بیراج ہیں-یہاں ایٹمی بجلی گھر بھی لگائے گئے ہیں-740 میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کر کے ڈسٹریبیوشن کے لئے گرڈ کو دی جا چکی ہے جبکہ1100 میگاواٹ بہت جلد سسٹم میں شامل کر دی جائے گی-پی-آئی-ڈی –سی نے صدر اسکندرمرزا کے دورِحکومت میں 1958 کےلگ بھگ یہاں چار کارخانے –سیمنٹ-کھاد-ڈائز اور پنسلین لگائے تھےجن میں دو کارخانےسازشوں کی نظر ہو کے بند ہوگئےجبکہ سیمنٹ اور کھاد کے کارخانے ابھی بھی کام کر رہے ہیں- میرا ضلع اللہ کے فضل و کرم سے منرل میں مالامال ہے- نمک- کالاباغ،ماڑی انڈس اور ککڑاں والا وانڈہ سے نکلتا ہے اور اس میں گلابی نمک بھی ہے کوئلہ-مکڑوال کالریز —جپسم اور سلیکا – داؤدخیل سے — ایلومینیم اور لوہا –تولہ بانگی خیل سے نکلتا ہے –بہترین سیر گاہیں –پہاڑی اور میدانی علاقے نمل جھیل جیسی کوبصورت جھیلیں-جہاں عمران خان وزیر آعظم پاکستان کا نمل کالج موجود ہے-
اب اگر ہم میانوالی کی ترقی کے سفر کا جائزہ لیں-تو آپ کو یہ جان کے حیرت ھو گی کہ میرے ضلع کے 80 فیصد لوگوں کا انتقال راولپنڈی،اسلام آباد میں ہوتا ہے-کیوں کہ تمام مریض جن کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے ڈاکٹرز اُنہیں اسلام آباد ریفر کر دیتے-میانوالی کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور –اسلام آبا د یا دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں –اور یہ مشق ہمارے آباؤاجداد سے جاری ہے-بہت سے لوگ اس نتیجہ پہ پہنچے ہیں کےجب تعلیم کے حصول کے لئے بچوں کو شہروں میں جانا ہے-جب علاج کے لیے ہمیں بڑے شہروں میں جانا ہے تو کیوں نہ نقل مکانی کر لیں-میانوالی سے نقل مکانی کا یہ سفر پچھلے سو سال سے جاری ہے اور اگر میانوالی کی ترقی کی رفتار یہی رہی تو نقل مکانی کا یہ سفر کبھی نہیں رکے گا-اگر موجودہ وزیرآعظمِ پاکستان بھی اس سفر کو نہ روک سکے تو یہ سفر کبھی نہیں رکے گا- اور یہ صرف ایک ضلع کی کہانی نہیں-یہ کئی ضلعوں کی کہانی ہے-