پاکستانی عوام جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور کورونا جیسے بدترین مسائل کا شکار ہے، اس کے لیے نیپرا کی جانب سے انتہائی بری خبر یہ ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمت میں ا یک روپیہ اور چھ پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے کہ یہ اضافہ زیرِ تجویز نہیں بلکہ اس اضافے کا اطلاق نیپر ا کی منظوری کے ساتھ ہو چکا ہے ۔ اب آپ اپنے آئند ہ بل میں بجلی کے معمول کے استعمال کے باوجود اضافہ دیکھنے اور برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ بحرحال، عوام پر یہ بم گرا دیا گیا ہے جس کے مالی اثرات کا وہ جلد سامنے کرنے والے ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا گیا؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام پر ایک بار پھر مہنگائی کا یہ بم کیوں گرایا گیا؟ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ غریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کے کاندھوں پر مزید مالی بوجھ ڈالنا پڑا؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا؟ کیا تمام راستے بند ہو چکے تھے؟ آئیے نیپرا کا موقف جانتے ہیں کہ اس کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے۔ہر بار کی طرح اس بار بھی نیپرا نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی وجہ فیول پرائیس اجسمنٹ بتائی ہے۔ اکتوبر کی فیول پرائیس اجسمنٹ کے سلسلے میں انتیس پیسے فی یونٹ جب کہ نومبر کی فیول پرائیس اجسٹمنٹ کے سلسلے میں ستتر پیسے فی یونٹ اضافے کی منظور دے دی گئی ہے۔ اس طرح فی یونٹ اضافہ ایک روپیہ اور چھ پیسے بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس منطور ی کے بعد اب ہر پاکستانی باشندے کو موجودہ بل کے مقابلے میں تقریبً ایک روپیہ فی یونٹ اضافی ادا کر نا ہوگا۔
بجلی کے اس اضافے کے عوام پر یا ایک عام آدمی پر اثرات
بجلی کے بلز میں مذکورہ بالا اضافے سے پاکستان کا عام شہری جس کی اوسط ماہانہ آمدن بیس سے پچاس ہزار ہے کافی متاثر ہوگا کیوں کہ بجلی کی قیمتوں میں پہلے ہی کئی بار بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، اور اس کے علاوہ جدید میٹرز کی برق رفتاری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ایک محنت کش جو پانچ سو یا ہزار روپیہ یومیہ کماتا ہے اس پر بجلی کے بل میں یہ مزید اضافہ یقینً بجلی بن کر گرے گا۔ تاہم، بجلی کی قیمتوں میں اِس نئے اضافے سے بجلی کے صارفین پر کل آٹھ ارب اور چالیس کروڑ روپے کا زائد بوجھ پڑے گا۔
ایم اے ڈبلیو