تعلیمی نظام میں تبدیلی کی ضرورت

In تعلیم
December 30, 2020

کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کا دارومدار اس قوم کے نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ نوجوان قوم کا سرمایا ہوتے ہیں اور قوم کی ترقی ان سے منسلک ہوتی ہے۔ نظام تعلیم بھی کسی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مگر وہ اقوام جن کے نظام تعلیم میں وقت کے مطابق تبدیلی نا آسکے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ پوری دنیا میں وہ اقوام آج تک ترقی حاصل کر سکیں ہیں جن کے نظام تعلیم کا معیار جدید تقاضوں کے عین مطابق ہے۔

امریکہ، یورپ، چین جیسے ممالک نے اس کو وقت کی ضرورت سمجھا اور باقی ممالک سے بہت آگے نکل گئے۔ چین اس وقت پوری دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشت کی حیثیت رکھتی ہے۔ چین نے ہر میدان میں پوری دنیا کو حیران کر کہ رکھ دیا۔ پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور اس کے نظام تعلیم میں بےشمار خامیاں ہیں جن پر ماضی میں کافی زیادہ بحث ہوتی رہی۔ لیکن ہمارا کام صرف اور صرف نقائص نکالنا نہیں ہونا چائیے بلکہ ان کا حل بھی بتانا چائیے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سب سے بڑی خامی اس کا پرانا نصاب ہے۔ وہ نصاب جو چالیس سال پہلے تھا، ابھی تک وہی کا وہی ہے۔ اس کی مثال انگلش کے مضمون میں ” مسٹر چپس ” کے ناول کا ہونا ہے۔ یہ ناول ہمیں جو استاد پڑھاتے ہیں ان کے دور کا ہے۔ جبکہ باقی دنیا میں نصاب کو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کیا جاتا ہے۔ نصاب میں تبدیلی نا کرنا سرا سر اس ملک کے ساتھ ساتھ زیادتی ہے۔ مگر ایک بات قابل ستائش بھی ہے کہ میٹرک تک کی کلاسوں کے کچھ مضامین میں تبدیلی کی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا عمل ہے۔ طالب علم وہ چیزیں جو ہائر کلاسوں میں پڑھتے تھے اب وہ چھوٹی کلاسوں میں پڑھ رہے ہیں جو کہ ایک خوش عین بات ہے۔

نصاب کے علاوہ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ” میڈیم” کا ہے۔ پہلے سب اردو میں سارا نصاب پڑھتے تھے مگر اب ساتھ ساتھ انگلش کو بھی ترجیح دی جارہی ہے مگر یہ بہت کم سکولوں میں ہے۔ دراصل انگلش یا اردو کا مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ سمجھنے بوجھنے کا ہے۔ اگر اردو میں اچھے سے ہر چیز سمجھ میں آ جاتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ مگر کیوںکہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے اس لئے نصاب کو انگلش میں پڑھانا وقت کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ جدید نصاب ہو اور ہو بھی انگلش میں تاکہ ہم بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ بچوں کی بہت بڑی تعداد محنت مزدوری کر رہی ہے۔ جس کا ذمہ دار ان بچوں کے والدین کے علاوہ حکومت وقت بھی ہے۔ مگر غربت کی وجہ سے بہت سارے قابل بچے مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ دیہاتوں میں بچوں کے سکولوں میں داخلے کی شرح بہت کم ہے۔ حکومت کو اس کی طرف خاص توجہ دینی چائیے۔

ہمارا تعلیمی نظام ان مسائل کے علاوہ بھی کئی اور مسائل سے دو چار ہے۔ اس کا براہ راست اثر طلبا و طالبات پر ہو رہا ہے۔ حکومت کو چائیے کہ موجودہ دور کے مطابق تعلیمی نصاب میں تبدیلی لائیں۔ سیرت نبوی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ بچوں کی اخلاقی تربیت سب سے ضروری ہے۔ اس کے لئے والدین اور ٹیچرز کی براہ راست توجہ درکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے۔ پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں ضروری نہیں کہ مولوی کا بیٹا مولوی ہو۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو ملک و قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔

/ Published posts: 35

I’m a student, researcher & a writer. I started writing articles 2 years ago. I’m 19 years old and always try to work for the betterment of country.

Facebook