Allahabad Address (1930)

In تاریخ
September 08, 2022
Allahabad Address (1930)

اس خطاب میں علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندرونی احساس کی واضح وضاحت کی۔ انہوں نے اسلام کے بنیادی اصولوں اور مسلمانوں کی ان کے عقیدے سے وفاداری کو بیان کیا۔ انہوں نے اس خطاب میں علیحدہ وطن کا تصور اور تصور اس لیے دیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کا حق ہے کہ انہیں شناخت ملے اور اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں کے مطابق گزاریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اس خطاب میں کیا۔

بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مسلمان الگ وطن کے بارے میں سوچنے لگے اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں کے مفادات پر دو شاخوں کا حملہ تھا۔ ایک طرف ہندو مسلمانوں کے راستے میں پابندیاں لگا رہے تھے اور نہرو رپورٹ کو ہندوستان کے لیے حتمی آئین کے طور پر تجویز کرنے کے لیے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہے تھے۔ دوسری طرف برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے حقوق کو یکسر نظر انداز کر دیا اور انہیں دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی تھیں۔ انہیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر انداز کیا گیا

ان نازک حالت میں علامہ محمد اقبال نے محسوس کیا کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے ان سنکی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے علامہ اقبال نے ایک لائحہ عمل کی طرف اشارہ کیا۔

اپنے خطاب میں علامہ اقبال نے وضاحت کی کہ اسلام ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن عنصر ہے۔ انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک قوم کے طور پر تعریف کی اور سفارش کی کہ انہیں ایک تسلیم کیے بغیر ہندوستان میں امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب تک مسلمانوں کو ایک قوم نہیں سمجھا جائے گا اور ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ملک میں امن و امان کا قیام ناممکن ہے۔ کیونکہ زمین میں بہت سی قومیں ہیں، ہر قوم اپنی رسوم، روایات اور مذہب میں دوسری قوم سے ممتاز ہے۔ ذہنوں کا فرق، خیالات کا فرق اور مذہب کا فرق، رسم و رواج کا فرق انہیں ایک ساتھ رہنے کے قابل نہیں بناتا۔ لہٰذا ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کا الگ وطن ہو کیونکہ علیحدہ وطن کے بغیر انہیں متحدہ ہندوستان میں زندگی بھر بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مسلم ہندوؤں کے مسئلے کے مستقل حل کے طور پر اقبال نے تجویز پیش کی کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، بلوچستان اور سندھ کو ایک ریاست میں تبدیل کر دیا جائے۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ملک کے شمال مغربی حصے کو برطانوی سلطنت کے اندر یا اس کے بغیر، ایک خود مختار اکائی کے طور پر متحد ہونا چاہیے۔

اسلام اور قوم پرستی
اپنے خطاب میں علامہ اقبال نے وضاحت کی کہ اسلام ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کی تاریخ کا سب سے بڑا تشکیلاتی عنصر تھا۔ اس نے وہ بنیادی جذبات اور وفاداریاں پیش کیں، جو بتدریج بکھرے ہوئے افراد اور گروہوں کو یکجا کرتے ہیں اور آخر کار انہیں ایک اچھی طرح سے متعین لوگوں میں تبدیل کرتے ہیں، جو ان کا اپنا ایک اخلاقی شعور رکھتے ہیں۔

انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک قوم کے طور پر تعریف کی اور تجویز پیش کی کہ جب تک انہیں ایک قوم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے اپنی اپنی ثقافتی اقدار کے مطابق ترقی کا واحد راستہ وفاقی نظام کے تحت ہے جہاں مسلم اکثریتی اکائیوں کو وہی مراعات دی جائیں جو ہندو اکثریتی اکائیوں کو دی جانی تھیں۔ اس حصے میں اقبال نے اسلام اور قوم پرستی کے تصور کو مخاطب کیا۔ اسلام ایک طرز زندگی ہے جس میں مسلمان اپنی زندگی امن اور ہم آہنگی کے ساتھ گزارتے ہیں، یہ زندگی کو منظم اور منظم کرنے کے اصول دیتا ہے اور مسلمانوں کی نفسیات میں ایک الگ قوم کی شناخت بھی کرتا ہے۔ اسلام مسلمانوں کو ایک الگ شناخت فراہم کرتا ہے اور انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے کیونکہ اس کے رسوم و روایات دوسرے مذاہب سے مختلف ہیں اور یہ عقیدہ توحید اور رسول اللہ کے اصولوں کی قبولیت پر زور دیتا ہے۔

جہاں تک قوم پرستی کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں قوم پرستی اسلام کے ذریعے آتی ہے، اسلام ایک مختلف طرز زندگی فراہم کرتا ہے۔ اسلام اگرچہ ایک مذہب ہے لیکن یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اصول و ضوابط بیان کرتا ہے۔ دوسری طرف یورپ والے اسلام کو ذاتی معاملہ سمجھتے تھے اور گمان کرتے تھے کہ اسلام کو سیاسی حالات کی رہنمائی نہیں کرنی چاہیے۔ اقبال نے جہاں واضح کیا کہ اسلام کوئی نجی معاملہ نہیں ہے، الگ وطن کا مطالبہ اسلام پر مبنی ہے کیونکہ اس میں عام زندگی کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔ ‘انسان،’ رینن کہتا ہے، ‘نہ تو اس کی نسل، نہ اس کے مذہب، نہ دریاؤں کے دھارے، اور نہ ہی پہاڑی سلسلوں کی طرف سے غلام بنایا جاتا ہے۔ انسانوں کا ایک عظیم اجتماع، عقلمند اور دل کی گرمجوشی سے ایک اخلاقی شعور پیدا ہوتا ہے جسے قوم کہا جاتا ہے۔

اتحاد کا سوال

اقبال نے اپنی تقریر کے اس حصے میں اتحاد کا اصول بیان کیا اور کہا کہ مختلف قوموں میں اتحاد ممکن ہے یا نہیں۔ اقبال کے نقطہ نظر کے مطابق اس برصغیر میں بہت سی قومیں ہیں اور ہر قوم کا اپنا سماجی، سیاسی اور مذہبی ڈھانچہ ہے۔ تقسیم کے بغیر اس سرزمین میں امن و امان کا قیام ناممکن ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی زندگی سکون سے گزار سکتے ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ایک قوم دوسری قوموں کے رسم و رواج کو قبول نہیں کرتی اور انہیں کمتر سمجھتی ہے۔ اس چیز نے اس بات کا اظہار کیا کہ امن اور ہم آہنگی قائم ہوسکتی ہے لیکن برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب کے نفاذ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ہندوستان کے اندر مسلمان ہندوستانی۔

اقوام کا اتحاد صرف علاقائی نہیں ہے جیسا کہ یورپی ممالک کا خیال ہے۔ ہندوستان مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، اور مختلف مذاہب کے ماننے والے انسانی گروہوں کا ایک براعظم ہے۔ ان کے رویے کا تعین کسی عام نسلی شعور سے نہیں ہوتا۔

نتیجہ

مسائل کا مستقل حل یہ تھا کہ اقبال کی نظر میں براعظم کی تقسیم ضروری تھی اسی لیے علامہ اقبال نے اس تقریر میں اپنے نظریات پیش کیے تھے۔

/ Published posts: 3239

موجودہ دور میں انگریزی زبان کو بہت پذیرآئی حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں ۹۰ فیصد ویب سائٹس پر انگریزی زبان میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ۸۰سے ۹۰ فیصد لوگ ایسے ہیں. جن کو انگریزی زبان نہ تو پڑھنی آتی ہے۔ اور نہ ہی وہ انگریزی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔ لہذا، زیادہ تر صارفین ایسی ویب سائیٹس سے علم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ہم نے اپنے زائرین کی آسانی کے لیے انگریزی اور اردو دونوں میں مواد شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس سے ہمارےپاکستانی لوگ نہ صرف خبریں بآسانی پڑھ سکیں گے۔ بلکہ یہاں پر موجود مختلف کھیلوں اور تفریحوں پر مبنی مواد سے بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ نیوز فلیکس پر بہترین رائٹرز اپنی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ جن کا مقصد اپنے ملک کے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں میں اضافہ کرنا ہے۔

Twitter
Facebook
Youtube
Linkedin
Instagram