انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہندوستان کے مسلمانوں کو تعلیم دینے اور ان کو اپنے ہندو ہم وطنوں کے برابر بنانے کے لیے بہت سے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ اس سلسلے میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ ندوۃ العلماء کا تھا۔ اس کے دو پیشرو علی گڑھ سکول اینڈ کالج اور دارالعلوم دیوبند ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ علی گڑھ نے جدید مغربی تعلیم پر زور دیا، جو ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ثمر آور ہے جبکہ دوسری طرف دیوبند نے مسلمانوں کو ان کی مذہبی روح اور مذہب کے علم کو بڑھا کر ایک ترقی یافتہ قوم بنانے کے لیے وضع کیا۔ ان حالات میں ایک ایسے ادارے کے قیام کی اشد ضرورت تھی جو بیک وقت اور ایک ہی جگہ پر دو طرح کی تعلیم فراہم کر سکے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ندوۃ العلماء کی بنیاد 1894ء میں لکھنؤ میں مولوی عبدالغفار نے رکھی، جو برطانوی حکومت ہند کے ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
نئے ادارے کے قیام کے مقاصد حسب ذیل تھے۔
نمبر1. مسلمانوں کی صفوں میں سے فرقہ واریت کو ختم کرنا
نمبر2. مروجہ انتہا پسند تعلیمی نظریات کا خاتمہ اور ان کو مربوط بنانا
نمبر3. تعلیمی نصاب میں بہتری
نمبر4. سماجی برائیوں کا خاتمہ
نمبر5. مسلمانوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں بہتری
نمبر6. مسلمانوں کی سیاست سے علیحدگی
نمبر7. مذہبی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دینے کے لیے ایک عظیم الشان تعلیمی ادارے کا قیام
بعد میں اس تعلیمی تحریک نے اپنے آپ کو وسعت دی اور 1898ء میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا اور کچھ ہی عرصے بعد اس کی باقاعدہ کلاسز شروع ہو گئیں۔ بہت سے لوگوں نے ندوہ کے قیام اور اسے گرانٹ فراہم کرکے اس کے کامیاب کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ مثال کے طور پر اس سلسلے میں سر آغا خان، بہاولپور کے امیر اور بھوپال کے نواب چند نام ہیں۔ تاہم، کچھ تنقیدیں بھی ہوئیں جیسے یو پی کے گورنر انتھونی میکڈونل، جو کہ ہندو کی جانب سے اردو-ہندی تنازعہ میں اپنی شراکت کے لیے مشہور ہیں، نے ندوا کو صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کا حصہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن چند سالوں کے بعد حکومت نے بھی ندوہ کی سرپرستی شروع کر دی اور اسے سرکاری گرانٹ بھی جاری کر دی گئی۔ 1908 میں ندوا کی عظیم الشان عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور یو پی کی برطانوی حکومت نے اس کی بنیاد رکھی۔
ندوہ نے اس کی مقبولیت کا عروج اس وقت دیکھا جب مولانا شبلی نعمانی نے 1904 میں اس میں شمولیت اختیار کی۔ شبلی نے مولوی عبدالحق کے ساتھ مل کر ندوہ کے لیے اصول و ضوابط مرتب کیے جس سے اس کا وقار بہت بڑھ گیا۔ ندوہ میں شامل ہونے سے پہلے شبلی علی گڑھ کالج کے فیکلٹی ممبر تھے جہاں انہوں نے خود کو ایک عظیم سکالر اور ایک کامیاب استاد ثابت کیا۔ لیکن سر سید احمد خان کے ساتھ ان کے مسائل تھے اور اس لیے انھوں نے 1904 میں علی گڑھ چھوڑ دیا۔ انہیں ندوہ کا انچارج بنایا گیا اور اس نے وہاں پڑھائے جانے والے نصاب کے نصاب میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ اس نے سکول میں انگریزی زبان کو بھی لازمی مضمون بنایا۔ وہ رسالہ ندوہ کے مدیر تھے اور انہوں نے اعظم گڑھ میں دار المصنفین بھی قائم کیا۔ لیکن جلد ہی شبلی اپنے حد سے زیادہ غرور اور سختی کی وجہ سے ندوہ کے عملے میں غیر مقبول ہو گئے اور انہیں استعفیٰ دینا پڑا لیکن ان کے استعفیٰ کے بعد ندوہ اپنی مقبولیت کھو بیٹھا اور وہ کبھی بھی وہ مقام حاصل نہ کر سکا جو شبلی کے زمانے میں اسے حاصل تھا۔
لکھنؤ کے ندوۃ العلماء نے سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مشہور علماء پیدا کئے۔ اس نے پاکستان کی تحریک آزادی کو سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی اور مسعود عالم ندوی وغیرہ جیسے آزادی پسند رہنما بھی فراہم کیا۔