ہر شخص یہ سوال کرتے ہوئے پایا جاتا ہے کہ ہمارے ملکِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حالات کب ٹھیک ہوں گے؟ عام آدمی کی زندگی کس طرح آسودہ حالی سے ہمکنار ہوگی؟ انسانی بنیادی ضروریات کب آسانی سے میسرو دستیاب ہوں گیئں؟ محروم اور پسے ہوئے طبقوں کو سہولیتں کب ملیں گیئں؟
اگر یہ مُلک جمہوری ہے تو ، جمہوریت کا تسلسل کتنا ضروری ہے اور اس تسلسل کو اور کتنے ماہ و سال درکار ہوں گے کہ اِس کے بھرپور فوائد عوام تک پہنچ سکیں کیونکہ ابھی تک عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ اس جمہوریت کے خوش کُن نعرے سے صرف مالدار اور سرمایہ دار طبقہ ہی مستفید ہوا ہے۔اور خوب ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بی بی جمہوریت اپنی پسماندہ عوام کے لیے ایک دِیرینہ خواب کی مانند ثابت ہوئی ہے جس کی تعبیر کا ملنا ہنوز دلی دور است ۔۔۔
اس جمہوریت میں غریبوں کے امیر لیڈروں کی ترجیحات کیا ہیں؟ اور اُن پر عمل پیرا ہونے کے لیے اُن کی ترکیبات کیا ہیں؟ کیا اِس ارضِ وطن کے حقیقی مسائل غربت ،پسماندگی ، بے روزگاری ،اقربا پروری ، مادیت اور کرپشن ہیں؟ اگر یہی امراض ہمارے مُلک کی جڑیں کھوکھلا کر رہی ہیں تو اِن کا علاج کیا ہے؟ ان کے لیے معالج کون سا ہو؟ معالج کی علمی ، ذاتی و اخلاقی حیثیت کیا ہے؟ اور مقبول و مشہور طبیب ِ دلنوز کا کردار کتنا مخلص ہے؟ کیا اِس وقت اِس نحیف مُلک پر حکومت کرنے والا معالج (سربراہ) اس مُلک کے عوام کے بنیادی مسائل سے آگاہ ہے؟ اور کیا وہ حکومتی اُصولوں سے شناسی رکھتا ہے؟ اور کیا اس کے پاس قابل ِ اعتماد ساتھی موجود ہیں یا اس کی جیب میں بھی بدستور کھوٹے سِکے ہی ہیں؟
اس مُلک میں غُربت لوگوں کو عوام اور خواص جیسے دو گروہوں میں بے رحمی سے تقسیم کررہی ہے۔ اور پالیسی ساز ابھی پرائمری کی ابتدائی کلاسوں میں بُھٹک رہے ہیں؟ حزب اختلاف بھی اِس مُلک پر بر سوں سے براجمان رہی لیکن کفِ افسوس اِن کی تجربہ کاری فقط دو نمبر ی میں رہی۔ دو نمبری کو واپس نمبر ون کی پوزیشن ڈھالنا مشکل تو تھا ہی لیکن اِ ن اولین سلیکڈڈ حکمرانوں نے اس دونمبر ی کوخالص بنانا ناممکن سمجھا اور نتیجہ ان کا آخر مصلحت پسندی کی صورت میں وارد ہوا ۔یہ حکمران بھی دو نمبر ی کے مستحکم قالب میں ڈھل گےاور اِسی کو اپنا شعار جانا ۔اِسی بدولت عوام کی غالب اکثریت میں یہ نعرہ زبان زدِ عام ہوا “اگر کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں” اور ہمارے نا آشنا عوام اِن دو نمبریوں اور دو نمبر لیڈروں سے مطمئن ہیں کیونکہ عوام بھی شائد دو نمبر ی پر چل رہے ہیں ؟ لیکن یہ سوال بدستور اپنی جگہ پر ٹھہرا ہو ا کہ اس مُلک کی تقدیر کب بدلے گی تو اس کے لیے ایک سادہ اور عام فہم کلیہ یا اُصول تمام پاکستانیوں کے لیے یہی ہے۔۔۔
پاکستان کب بدلے گا ؟؟؟؟؟ ہم بدلیں گے تب بدلے گا۔۔۔