کورونا کی نئی لہر اور پاکستان
کرونا کی پہلی لہر میں چین کے شہر ووہان کا نام آیا اور پھر اس مہلک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بالخصوص یورپ میں اس نے تباہی مچا دی برطانیہ اور امریکہ جیسے جدید ترقی یافتہ ممالک ھبی اس سے محفوظ نہ رہ سکے کروڑں لوگ متاثر ہوئے اور ہزاروں لوگوں نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے اقوام عالم میں پریشانی کی لہر دوڑی اور صحت کی تنظیموں نے وارننگ جاری کی۔ ہنگامی بنیادوں پر ویکسین کی تیاری کا عمل شروع ہوا اب امریکا برطانیہ اور کئی ممالک میں ویکسینیشن کی جا رہی ہے
ابھی دنیا کرونا کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہی تھی کہ دسمبر میں برطانیہ میں سپر کرونا کے نام سے اس بیماری میں شدت آئی اور کہا جا رہا ہے کہ یہ وائرس اب پہلے سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والا اور خطرناک بن چکا ہے کیا احتیاطی تدابیر اس نئے وائرس بی ۱۱۷ کو روکا جا سکے گا اور مختلف ممالک نے برطانیہ جانے والی اور برطانیہ سے آنے والی پروازوں کو روک دیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا میں کیا تبدیلیاں رونما ہونے والی ہے اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ کرونا کی وجہ سے دنیا کی معاشی سیاسی ومعاشرتی صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے بالخصوص کرونا کی وجہ سے مذہبی عبادات کی ادائیگی اور مقامات مقدسہ کی زیارات کومحدود کردیا ہے پاکستان میں بالخصوص کچھ سیاسی و مذہبی حلقوں نے تمام تر حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کر کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں اور جلسے کرونا وائرس میں پھیلاؤ کا موجب بن رہے ہیں جبکہ اپوزیشن اسے حکومتی پروپیگنڈا قرار دے رہی ہے اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کیا پاکستان اس خطرناک وبا کا مقابلہ کر پائے گا کیا ہمارے اہل اقتدار اور سیاسی حلقے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کی جان و مال کی حفاظت کو مدنظر رکھیں گے
یہی وہ صورتحال ہے جس کا فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں کیونکہ پاکستان میں ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر ترجیح دی جاتی رہی ہے مگرخوش قسمتی سے پچھلے سال کے دوران حکومتی اقدامات کوبین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے اس کی وجہ کرونا کیسز میں نسبتا کمی تھی مگر اس مرتبہ پھر عوامی شعور اور ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر اقدامات کرنے ہوں گے اور تمام حفاظتی تدابیر کو مد نظر رکھنا ہوگا اس سلسلہ میں غفلت اور کوتاہی ملک و قوم کے لئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے لہذا حکومت کی یہ دہری ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ قیمتی جانوں اور ملکی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بروقت اور درست فیصلے کرے چاہے یہ کسی کو برداشت ہوں یا نہ ہو ںبہرحال معیشت پر انسانیت کو ترجیح دی جانی چاہیے