آپ نے دن کے وقت مکمل اندھیرے کا سامنا کیا ہے؟ ایسے میں سب کچھ بہت ہیبت ناک لگتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو انسان کو ہر دور میں پریشان کرتی آئی ہے اور اس کے حوالے سے ہمیشہ پراسراریت کو محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی اگر دن کے اوقات میں کہیں سورج کی روشنی سے یکسر محروم ہو جائے ہم اس کے نتیجے میں حیران رہ جاتے ہیں اور خوف بھی محسوس ہوتا ہے۔ 11 اگست 1999ء کا دن بھی دنیا کے لئے ایسی ہی حیرت انگیز حقیقت لے کر آیا۔
اس دن جنوبی ایشیا میں سورج گرہن تھا اور تین سے چار منٹ کے لئے آسمان مکمل طور پر بے سورج ہوگیا اور تارے نکل آئے۔ یہ دیکھ کر بہے سے لوگوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ سجدے میں گر پڑے۔ پاکستان میں بھی سورج روشنی سے محروم ہوا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ ایسا موقع صدیوں میں ایک بار آیا کرتا ہے۔سوال یہ کہ سورج کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اِس کے ہوتے ہی آسمان تریک کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اتنی مستند نہیں کہ ان پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیا جائے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ زمین 18 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلاکی وسعتوں میں اُڑی جا رہی ہے۔ اس کا سفر مسلسل جاری رہتا ہے اور اس سفر کے دوران کئی سخت مقام بھی آتے ہیں۔ کہیں زمین کسی سیارے یا ستارے کی باقیات سے گزرتی ہے اس کے ذرات زمین کی فضا میں شامل ہو کر ایک فلو قائم کر دیتے ہیں اور کے نتیجے میں ایسا اندھیرا چھا جاتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس قسم کے کئی واقعات کا ریکارڈ دستیاب ہے اور اس ریکارڈ کا جائزہ بہت سی حیرت انگیز طشت ازبام کرتا ہے۔
26اپریل1884 کا دن امریکی شہر پریسٹن کے لئے پریشانیاں لایا۔ دن کے وقت ایسا اندھیرا چھایا جیسے کسی نے پوری فضا پر کمبل ڈال دیا ہو۔ لوگ بد ہواس ہو کر گھروں سے نکل آئے ۔ جانور اپنے لئے مختص جگہوں پر دبک گئے۔ اس صورت حال نے لوگوں کو عبادت کرنے پر مجبور کر دیا جومذہب کی جانب جھوکاو رکھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اب دنیا کا خاتمہ ہونے کو ہے! آٹھ دس منٹ کے بعد سورج کی روشنی بحال ہو گئی اور زندگی معمول پر آگئی۔ اس واقعے کی کوئی وجہ پیش نہیں کی جا سکی۔