وبا نگر

In ادب
December 28, 2020

وبا نگر
ہر طرف خوف و ہراس کے ساۓ فرض رات کی طرح زمین پر نازل ہو چکے ہیں. فضا میں بجھے ہوۓ استعمال شدہ بارود کی سوئی ہوئی بدبو پھیلی ہے. انسانی بستیوں کے نحیف کندھے زندگی کا بھاری بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو چکے ہیں. زندگی کا نشان خودبخود غائب ہوتا جا رہا ہے. انسانوں سے “کائناتی امامت” چھین لی گئی ہے.

گدھ اور کوے کے ہاتھ زمین اور آسمان کی سرداری ہے. کوا انسانی مکانوں میں مستقل طور پر رہنے لگا ہے. وہ خود کو راجہ گدھ کا نائب بتاتا ہے. انسانی لاشوں کو اس ڈر سے کہ وہ دوبارہ زندہ نہ ہو جائیں, گہرے گڑھوں میں بے رحمی سے پھینکا جا رہا ہے. ہر انسان دعا میں ہاتھ اٹھاۓ کھڑا ہے کہ وبا کا یہ وقت جلد سے جلد بلکہ پل جھپکتے گزر جاۓ, چاہے بدلے میں اس کے سوا کتنے ہی انسان لقمہء اجل بن جائیں. ہر ذہن اپنے زندہ رہنے اور دوسروں کے مرنے کے امکانات (probabilities)کا حساب لگا رہا ہے. لاشیں گننے والوں کے منہ سے نکلنے والے بھاری بھرکم اعداد و شمار ان کی مستعدی اور پیمان (accuracy) کا ثبوت ہیں. انسانوں کے ننھے منے بچے دن کے وقت وبا کے بارے میں بات کرتے ہوۓ ایسے سوال کرتے ہیں جن کا جواب شاید زمانے کے بڑے بڑے سائنسدانوں کے پاس بھی نہ ہو.

کوئی جواب نہ پا کر وہ خود ساختہ فلسفوں کی خاک جھاڑ کر چپ ہو جاتے ہیں. اور رات کو دن بھر کی اچھل کود کو یاد کرتے کرتے پرانی نیند کی آغوش میں جا دبکتے ہیں. نوجوان انسان جو وبا کے سامنے خود کو بے بس پا کر ہنسنے کی ناکام کوشش کرتے تھے, ہنسنا چھوڑ چکے ہیں.مسند اشرف المخلوقات تہزیب کے اجڑے کھنڈرات میں ویران پڑی ہے. اس پر بیٹھنے والے کو چمن بدر کر دیا گیا ہے. دھیمک خاموش راتوں میں اسے چاٹنے لگی ہے. عنقریب یہ انسانی ” قوت نیابت” کی طرح مٹی کے ساتھ جا ملے گی. اس روحانی عذاب کے نزول کے بعد انسان کو تمام مصائب و آلام کسی معمولی کانٹے کی چبھن لگتے ہیں, جسے وہ اک دم میں جلد سے نکال کر فی السکون ہو سکتا ہے.خیالات کی ازلی چوپال میں بیٹھے کچھ دانشور ابھی بھی اس بحث میں الجھے ہوۓ ہیں کہ وبا روحانی ہے یا جسمانی…………………….

/ Published posts: 1

طالب علم بی ایس فزکس نسٹ اسلام آباد ذوق و شوق: کتب بینی, شاعری, نثر نگاری اور سائنس و ٹیکنالوجی کا مطالعہ اور فلسفہ اور مذہب میں ریسرچ

Facebook