جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہ فتنوں کا دور ہے ابلیسی قوتیں پوری ہوشیاری کے ساتھ دینی اقدار کو روندنا چاہتی ہیں اس طوفان بلا خیز کا چہرہ بھی ایک نہیں کہ بندہ کس ایک محاذ پر ڈٹ جائے اور اس کا مقابلہ کرے بلکہ اس کے ہزار چہرے ہیں جب صورت حال ایسی ہو تو اہل حق کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔
آستانہ عالیہ حضرت امیر السالکین بھیرہ شریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے مسند نشیں ہر دور میں ایسے صاحب بصیرت رجال کار آئے ہیں جنہوں نے اپنے عہد کے مسائل کو بہت گہرائی سے سمجھا بھی ہے اور پھر ان کو حل کرنے کی بساط بھر کوشش بھی کی ہے۔حضرت پیر امیر شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ نے اپنے دور میں لوگوں کو شراب معرفت الہی پلا کر جادۂ حق پر ایسا گامزن کیا کہ فیض یافتگان کی دیوانگی پر اہل خرد کی فرزانگی رشک کرنے لگی۔
حضرت غازی اسلام پیر محمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے امت کی زبوں حالی کو عقابی نظر سے دیکھا اور پھر فیصلہ کیا کہ چراغ علم جلا کر ہی ان گھٹا ٹوپ اندھیروں سے کاروان ملت کو نکالا جا سکتا ہے تو اس مقصد کے حصول کے لیے آپ نے دو اداروں محمدیہ غوثیہ پرائمری سکول اور دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی بنیاد رکھی اور ایک ایسی عبقری شخصیت تیار کی جس نے ایک ایسا ہمہ جہت نوری انقلاب برپا کیا کہ ہر طرف روشنی ہی روشنی نظر آنے لگی اور اس ہستی کی نور نوازیوں کی وجہ سے زمانہ انہیںضیاءالامت کے روشن لقب سے یاد کرنے لگا۔انہوں نے ایک ذمہ دار استاد کی حیثیت سے ہزاروں جید علماء تیار کئے جو اس وقت پوری دنیا میں علم کا اجالا پھیلا رہے ہیں۔ایک پیر روشن ضمیر کی حیثیت سے ہزاروں گم کردہ راہ لوگوں کو عرفان ربانی سے مالا مال کیا۔ایک مفسر قرآن کی حیثیت سے اللہ تعالی کے کلام پاک کی ایسی تفسیر فرمائی جو قاری کے قلب و نظر کو عرش الہی پر بوسہ زن ہونے کا شعور عطا کردے۔
خودفراموش ہی تیرے عرش کو چھو کر آئے
خواجگی جبہ و دستار سے آگے نہ بڑھی
سیرت نگار کی حثیت سے سات جلدوں میں سیرت کی ایسی مستند،مبسوط اور جامع کتاب ضیاء النبی کے نام سے رقم فرمائی کہ ادب و شوق سے جس کا مطالعہ کرنے والا بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضوری بن جائے۔بالغ نظر،جہاں بیں اور بے لوث صحافی کی حیثیت سے مجلہ ضیاءحرم کا اجراء کیا،پوری دنیا میں مختلف کروٹیں لیتی انسانی فکر کا ادراک کیا،پوری دنیا میں سر اٹھاتے فتنوں کی نشاندہی بھی کی،حسب مقدور ان کا تدارک کرنے کی سعی مشکور بھی فرمائی،اس دور میں جب کہ شعبہ صحافت غلاظت کا گڑھ بن چکا تھا آپ نے اس کو حرم کے آب زم زم سے ایک نیا تقدس بخشا۔
ایک قلم کار اور ادیب کی حیثیت سے ادب و انشاء کا خزانہ لٹایا لیکن ایک حرف بھی مقصدیت کے نور سے خالی نہیں لکھا۔بلکہ آپ کے رشحات فکر
سنت خیر الانام کی صورت میں ہوں،مقالات کی صورت میں ہوں،یا ضیائے حرم کے سر دلبراں کی صورت میں۔ہر تحریر ادب و انشاء کے گلشن کا ایک خوبصورت پھول اور آسمان فکر کا ایک روشن ستارہ ہے۔ایک جسٹس کی حیثیت سے کرسی انصاف کو خلافت راشدہ کے عہد کا تقدس بخشا اور قرون اولی کے عظیم الشان مسلمانوں کی للہیت کی مثال قائم فرمائی۔
رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا تو تمام اغراض فاسدہ سے اور تمام حکومتی اثرات سے بالاتر ہوکر ایک خادم اسلام کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجام دیں اور ایک صالح ریکارڈ قائم کیا۔ایک منتظم کی حیثیت سے امانت و دیانت اور تدبیر کی انمٹ تاریخ رقم فرمائی جس سے استفادہ کرکے کوئی بھی تحریک منزل آشنا ہو سکتی ہے۔اسی فیض سے آج اندرون وبیرون ملک سینکڑوں ادارے مصروف عمل ہیںایک باپ کی حیثیت سے اولاد کی ایسی تربیت فرمائی کہ ان کو خونی رشتۂ اخوت سے زیادہ اسلامی رشتۂ اخوت میں خوبصورتی سے باندھ دیا جس کی تقلید کر کے کوئی بھی خاندان اپنی خانگی زندگی کو سنوار سکتا ہے
آپ کی تصانیف میں پانچ جلدوں پر مشتمل ل اردو ادب کا عظیم شاہکار تفسیر ضیاء القرآن، اردو ادب کا عظیم شاہکار ضیاءالنبی،مقالات ضیاء الامت،ترجمہ جمال القرآن،اور سنت خیرالانام شامل ہیں۔
پیر محمد کرم شاہ صاحب یکم جولائی 1918 کو بھیرہ شریف زمین پر پیدا ہوئے، آپ کی وفات 7 اپریل 1998 کو ہوئی۔
جس دن آپ کی وفات ہوئی اتفاقیہ طور پراس دن عید الاضحی کا دن تھا۔ لہذا آپ کا اس سے مبارک عید الاضحیٰ کے دن پر تو منعقد نہیں ہو سکتا اس وجہ سے آپ سے آپ کے وابستگان نے آپ اس کو کے چالیسویں کی مناسبت سے 19 اور 20 محرم الحرام کے دن رکھا۔ مگر اہل عقیدت سے اپیل کی جاتی ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق عید الاضحیٰ کے دن حضرت ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو ایصال ثواب کریں۔