تاریخ میں غالبا عظیم عبرانی پیغمبر موسیٰ سے زیادہ کسی دوسرے شخص کی اس قدر وسیح پیمانے پر پزیرائی نہیں ہوئی- وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مقبولیت اور پیروکاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے- پانچ صدیوں تک موسیٰ سبھی عبرانیوں کے لئے محترم رہا- 500تک ان کی شہرت عیسائیت کے ساتھ ساتھ یورپ بھر میں پھیل گئی- ایک ہی صدی کے بعد حضرت محمّد نے موسیٰ کو ایک سچا پغمبر تسلیم کیا-
آج بتیس صدیوں کی مدت کے بعد موسیٰ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئےایک سا مقدس ہے- جدید نظام ابلاغ عامہ کا بھلا ہو کہ آج ہم ماضی کی نسبت کہیں زائدہ بہتر انداز میں اس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں- عمومی طور پر موسیٰ سے تین اہم کارنامے منسوب کئے جاتے ہیں- “اول” اسے ایک سیاسی شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس نے عبرانیوں کی مصر سے اکسوڈس تک رہنمائی کی- اس حوالے سے کم از کم یہ امر تو واضح ہے کہ اسی کے سر یہ سہرہ بندھنا چاہے، “دوئم” انجیل کی پہلی پانچ کتابوں ( “جینس، اکسوڈّس، لیویٹی کس، نمبرز ارر ڈیوٹرونومی”) کی تسنیب اسی سے منسوب کی جاتی ہے- انہیں موسیٰ کی پانچ کتابوں کا نام بھی دیا جاتا ہے، یہی یہودیوں کی توریت کی تسکیل بھی کرتی ہیں، ان کتابوں میں موسوی شریعت کا بیان ہے، جو قوانین کا مجموعہ ہے- جنہوں نے انجیل کے دور میں یہودیوں کے کردار کی نگرانی کی اور جن میں ہی ” احکامات عشرہ ” بھی شامل ہیں- ان کے انتہا اثرات کے پیش نظر، جو توریت نے حیث المجوع اور دس احکامات بلخصوص لوگوں پر مرتب کیے، ان کے مصنف کو ایک عظیم اور بے انتہا متاثر کن فرد تصور کیا جا سکتا ہے- تاہم انجیل کے متعدد علما کا متفقہ کھیل ہے کہ موسیٰ اکیلا ان تمام کتابوں کا مصنف نہیں تھا
“سوم” بیشتر لوگ موسیٰ کو یہودی وحدانیت کا بنی قرار دیتے ہیں- ایک اعتبار سے ایسے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں ہے- موسیٰ سے مطلق ہماری تمام معلومات کا واحد منبع عہد نامہ قدیم ہے-تاہم یہ واضح ہے کہ اگر موسیٰ نہ ہوتا تو یہودی وحدانیت دم طوڑ دیتی- اس نے اس کے تحفظ اور اگلی نسلوں تک اس کے انتقال میں ایک بنیادی کردار ادا کیا، اسی حقیقت پر اس کی اہمیت کی بنیاد قائم ہے، جبکہ دنیا کے دو عظیم مذاہب عیسائیت اور اسلام دونوں یہودی وحدانیت کے ہی پروردہ ہیں، ایک سچے خدا کا تصورجس پر موسیٰ کا ایسا گہرا عتقاد تھا، اسی کے سبب دنیا کے بارے حصے میں مقبول ہوا
مہوش کنول مشی