بوکو حرام کے سربراہ ابوبکر شیخو کی “پر اسرار” ہلاکت اور نائجیریا میں خانہ جنگی کا بنیادی پس منظر

In بریکنگ نیوز
June 11, 2021
بوکو حرام کے سربراہ ابوبکر شیخو کی "پر اسرار" ہلاکت اور نائجیریا میں خانہ جنگی کا بنیادی پس منظر

پچھلے بارہ  سالوں سے نائجیریا میں متحرک کالعدم گروپ “بوکو حرام” کے لیڈر ابو بکر شیخو    ہلاک ہو گئے ہیں- ان کی موت کی تصدیق نائیجیریا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی کر دی ہے یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انہیں ریاستی اداروں نے ہلاک نہیں کیا ہے بلکہ  ابو بکر شیخو کی ہلاکت کی ابتدائی تصدیق نائجیریا کے ایک مسلح گروپ  “ISWAP”Islamic State Of Western African Provinces” نے اپنی جاری کردہ آڈیو ٹیپ کے ذریعے کی ہے اس آڈیو ٹیپ میں بتایا گیا ہے

“ISWAP ” کی پیش قدمی کہ کے دوران ابو بکر شیخو نے مذکورہ مسلح تنظیم کے خوف سے ہی خود اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے ہلاک کرکے خودکشی کرلی ہے ان کی ہلاکت کا یہ واقعہ گزشتہ روز  شمال مشرقی نائجیریا کے جنگلوں میں رونما ہوا جہاں “ISWAP” کے مسلح گروہ ابو بکر شیخو کا تعاقب کر رہے تھے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دونوں گروپوں میں مسلح  دشمنی پائی جاتی ہے – بوکوحرام ابوبکر شیخ کی زیر قیادت نائجیریا کے شمال مشرقی علاقہ ” Borno State  ”   ہے وہاں متحرک تھا اور اسی علاقے میں زیادہ تر اپنی خونریزی کا کھیل کھیلتا تھا – کہا جاتا ہے کے “ISWAP” بو کو حرام کے دیرینہ سربراہ کو اپنے ساتھ ملانا بھی چاہتی تھی.

اس سے قبل بھی ان کی ہلاکت کی خبریں آتی رہی ہیں مگر اس دفعہ خود بو کو حرام اور ریاستی اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے- ان کی ہلاکت کے بعد یہ بات  زیر بحث ہے کہ اس کے بعد بو  کو حرام, نائجیریا کے اندر خانہ جنگی اور امن و امان کی صورتحال کا مستقبل کیا ہوگا  –  اس بات کو سمجھنے کے لئے نائجیریا کے اندر خانہ جنگی اور مسلح گروپوں کا تاریخی پس منظر مختصر انداز میں جاننا بہت ضروری ہے- نائیجیریا مغربی افریقہ میں موجود ایک نہایت ہی پسماندہ اور غریب ترین ملک ہے جو ایک عرصے سے بدامنی اور خانہ جنگی کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے- نائجیریا کا کل رقبہ 9لاکھ 23ہزار7سو 68  مربع کلومیٹر ہے-  جبکہ اس کی کل آبادی 210,890,832 ہے- آبادی عیسائیوں اور مسلمانوں کی برابر تعداد  پر تقریبا مشتمل ہے-اس کا دارالخلافہ ABUJA” ہے- اس کی قومی زبان English  نائجیریا 1960 میں برطانیہ سے آزاد ہوا -افریقی اور قبائلی روایات کے رجحان,غربت اور جہالت کی وجہ سے آزادی کے وقت سے لے کر ہی مقامی قبائل میں خانہ جنگی اور عدم امن کی فضا بنی رہتی تھی- لیکن سال 2000  سے کالعدم مسلح گروپ “بوکوحرام” کی ” تشکیل سازی” کے بعد خونریزی اور بدامنی کا ایسا بہترین سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھم سکا –

بوکوحرام کے بانی نائجیریا کے مقامی باشندے” محمد یوسف” تھے جنہوں نے سال  2000 میں   اس مسلح گروپ کی بنیاد رکھی – بو کو حرام کے مسلح گروپ کا اصل  نام  “جماعت السنالدعوۃ الجہاد” تھا  -محمد یوسف اس سے پہلے ایک مذہبی مدرسہ اور ایک مذہبی اسکول بھی چلاتے تھے- ابتدائی طور پر اس گروپ کا مقصد نائجیرین حکمرانوں کی کرپشن, بدعنوانی, ناانصافی, ریاستی اور بین الاقوامی ا اداروں کی عوام کے حقوق کے استحصال کی روش کے خلاف ایک جدوجہد تھی-  حقوق کے حصول کے لیے بنایا گیا یہ گروپ بدترین شدت پسندی کی ایسی شکل  اختیار کر گیا جس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے –  اپنے ہی ریاستی شہریوں اور معصوم لوگوں پر بدترین مظالم کی وجہ سے مقامی لوگوں  نے افریقی  زبان “Hausa” میں اس کا نام بوکوحرام رکھ دیا – وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نائجیرین حکومت کی نااہلی اقوام عالم کی خاموشی کی وجہ سے بو کو حرام کی مقامی معصوم لوگوں کے ساتھ ظالمانہ کارروائیاں شدت اختیار کرگئی-

تاہم 2009 میں نائجیریا کے ریاستی قانون نافذ کرنے والے ادارے محمدیوسف سربراہ بو  کو حرام کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اسےتحویل میں لے کر  ہلاک کر دیا  – مگر اس سے حالات مزید بگڑ گئے اور بوکوحرام نے اپنی  ظالمانہ کارروائیوں میں اضافہ کردیا – محمد یوسف کی ہلاکت کے بعد اس کے نائب “ابو بکر شیخو” کو 2010 میں بوکوحرام کا نیا سربراہ بنا دیا گیا- ابو بکر شیخو کی قیادت میں ریاستی بدامنی کا خطرناک ترین واقعہ اس وقت پیش آیا جب بو کو حرام کے لوگوں نے شمال مشرقی نائجیریا کے علاقے میں اسکول کی تین سو طلبہ کو اساتذہ سمیت اغوا کرلیا – یہ واقعہ 2014 میں رونما ہوا جس کی بین الاقوامی سطح پر بھی  بھرپور مذمت کی گئی یہاں تک کہ اس وقت کی امریکی خاتون اول مشعل اوباما نے طلبہ کے حق میں Tweet کیا  “WE ARE WITH THE FAMILIES OF GIRLS. IT’S  TIME TO BRIGN BACK OUR GIRLS”نائجیرین حکومت نے بین الاقوامی اداروں کی مدد سے بوکو حرام کے خلاف کارروائیوں کو مزید تیز تر اور مؤثر کر دیا  –

بوکوحرام نے ISISتعلقات بھی استوار کرنے کی کوشش کی لیکن اس سلسلے میں کوئی” پیش رفت” نہ ہوسکی  2016 میں بوکوحرام کے بانی محمد یوسف کے بیٹے موسی البر نوی نے اپنا ایک الگ مسلح گروپ بنالیا جس میں زیادہ تر بوکوحرام سے الگ ہو جانے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی مسلح گروپ ہونے کے باوجود “موسی االبر نوی “کے گروپ کا طریقہ کار بوکوحرام کی نسبت کم شدت پسندی کا حامل تھا-   اس گروپ کا نام ” ISWAP” Islamic State Of Western African Provinces  تھا  –

یہ گروپ بوکوحرام کے مخالف تھا اور اس کے ساتھ مسلح لڑائی ابھی ہوتی رہتی تھی  – اس گروپ کے بننے کے بعد بوکو حرام کے اثر و رسوخ میں کافی حد تک کمی آ گئی اور بہت سے علاقوں سے بوکو حرام کا صفایا ہو گیا-لیکن اس کے باوجود یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ  بو کو حرام نائجیریا سے مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے کیونکہ شمال مشرقی نائجیریا کے بہت سے علاقے ابھی بھی بو کو حرام کے زیر عتاب ہیں –   اقوام متحدہ, امن قائم کرنے والے  بین الاقوامی اداروں   کو نائجیریا اور اس جیسے دوسرے پسماندہ ترین ممالک میں اامن قائم کرنے کے لیے تمام عملی اقدامات   موثر انداز میں بروئے کار لانے چاہئیں-

/ Published posts: 1

I believe in providing best content for the reader through my articles .