بجٹ کی آمد آمد ہے اور کرونا وائرس نے بھی دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے .جہاں دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ملک کرونا وائرس کے اثرات کے سامنے سر تسلیم خم کیے دکھائی دیتے ہیں وہیں پر ہماری ملکی معیشت بھی اسکے کاری وار سے نہ بچ سکی جہاں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیا ہوئیں وہیں پر پاکستانی معیشت بھی کافی حد تک متاثر ہوئی اور اسکے نتیجے میں خسارہ کم کرنے اور دیوالیہ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے پرائیوٹ کمپنیوں نے اپنے اکثر ملازمین نوکری سے فارغ کردئیے لاکھوں کی تعداد میں ملازمین کے فارغ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوچکا ہے .
اگر ہم اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیں تو ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ایسے ملیں گے جنکی معاشی حالت نہایت ابتر ہوچکی ہے ملازمتوں سے نکالے جانے کی وجہ سے ہزاروں سفید پوش خاندان بڑی مشکل سے اپنا گزر اوقات چلانے پر مجبور ہیں ۔کرونا وائرس نے جہاں پوری دنیا پر اپنے مہلک اثرات مرتب کیے وہیں پر ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو کرونا وائرس کے اثرات سے معاشی طور پر متاثر نہیں ہوا.جی ہاں میں بات کر رہا ہوں سرکاری, نیم سرکاری اور مستقل ملازمین کی,یہ طبقہ معاشی لحاظ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں سے بہتر زندگی گزار رہا ہے۔
کرونا وائرس کے اثرات کی وجہ سے ملکی معیشت ابھی مستحکم نہیں ہوئی ہے جسکی وجہ سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر لگتا ہےلہذا اگر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوجائے تو ان ملازمین کو خداوند کریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے لیکن اگر بجٹ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ ہو تو ان کو پریشان ہرگز نہیں ہونا چاہیے نہ ہی حکومت کو کوسنا چاہیے کیونکہ قرآن میں سورہ یوسف آیت 106 اور 107 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
اور سوائے خدا کے کسی چیز کو نہ پکارو کہ جو نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان ۔ اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاوٴ گے اور اگر خدا( امتحان کے لئے یا گناہ کی سزا کے طور پر ) تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ کوئی اسے بر طرف نہیں کرسکتا اور اگر وہ تیرے لئے بھلائی کا رادہ کرے تو کوئی بھی اس کے فضل کو نہیں روک سکتا اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والاہے ۔لہذا ہمیں اپنی نظریں کسی بھی فائدے یا نقصان کی صورت میں غیر اللہ پر نہیں بلکہ رب کریم پر رکھنی چاہئیں
دیکھا جائے تو شکوے سے شکر تک کا یہ سفر بظاہر بہت چھوٹا ہے مگر حقیقت میں یہ زمین سے آسمان تک کے سفر سے بھی زیادہ بڑا ہے انسان کے رزق میں تنگی کا بڑا سبب ان کی ناشکری اور بے صبری ہے یہ اگر ناشکری چھوڑ دیں تو ان کی روزی کے تمام دروازے کھل جائیں گے اپنی بیماری میں کراہنے والا کوئی شخص ہسپتال کے ایمرجنسی یا کیجولٹی وارڈ میں چلا جائے تو واپسی پر وہ شکر ادا کرتے ہوئے نکلتا ہے شیطان کا ایک نام ’’کفور‘‘ ہے بہت بڑا ناشکرا اور یہی ’’ناشکری‘‘ شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک مہلک ہتھیار ہے شیطان سارا دن اور ساری رات ناشکری بانٹتا ہے آپ کے پاس جو سواری ہے آپ کو اس سے اچھی سواری کی لالچ میں ڈال دے گا تب اپنی سواری حقیر نظر آئے گی تو ضرور ناشکری ہو گی اور جب ناشکری ہو گی تو پھر برکت ضرور اٹھ جائے گی اس لئے ضروری ہے کہ ہم شیطان کے اس وار کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطاء فرمایا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اپنے دل کو اس نعمت پر راضی کریں آج مسلمانوں میں جو ہر طرف رزق کی تنگی اور بے برکتی پھیلی ہوئی ہے اس کا ایک بڑا سبب ناشکری بھی ہے اس ناشکری سے ہم سب توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگا کریں.
اَللّٰھُمَّ رَضِّنِیْ بِمَا قَضَیْتَ لِیْ اَللّٰھُمَّ رَبِّ قَنِّعْنِیْ بِمَا رَزَقْتَنِیْ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَنِیْ
یا اللہ مجھے جو عطاء فرمایا ہے اسی پر مجھے خوشی اور قناعت عطاء فرما دیجئے
رَضِیْتُ مَا اَعْطَانِیَ اللّٰہُ میں اس پر راضی ہوں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء فرمایا ہے بیوی ، اولاد، مکان ، خوراک ، کپڑے ،صحت وغیرہ
… ان سب میں ہم شکرگذاری کے راستے کو اختیار کریں*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر و تحقیق
سجاد علی