ملالہ کی حقیقت

In شوبز
June 08, 2021

قدیم یونانیوں مصریوں اور یہودیوں کی تاریخی تحریریں اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ ذہنی خلل کا تعلق انسان کے گناہوں اور نیک اعمال سے ہوتا ہے گناہوں کی سزا انہیں آسیب اور دیوتاؤں کی ناراضگی سے ملتی ہے برے اعمال کے نتیجے میں وہ ان پر قبضہ جما لیتی ہیں اور جنات ان کے کردار کو متاثر کرتے ہیں دیوتاؤں کی حقیقی صورت میں بادلوں میں گرج بجلی کی کڑک زلزلے طغیانی کی صورت میں ملتاہے۔

اس دوران میں یہ تصور بھی تھا کہ بعض اوقات اچھے اعمال کی بدولت نیک روحیں بھی نیک شخص پر قبضہ کر لیتی ہیں اس صورت میں مریض صوفیانہ انداز میں یا مذہبی اور اخلاقی گفتگو کرتا تھا ایسے لوگوں سے انتہائی عزت وآبرو والا سلوک کیا جاتا ،اس طرح کے کھانے دیے جاتے جوانہیں پسند ہوتے، تاکہ دعائیں وصول کی جا سکیں۔ اس دور میں ہروہ بات جو کہ سمجھ میں نہ آ سکتی تھی یا ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی جنات کہلاتی، ذہنی خلل کو بھی وہ اسی پیمانے پر پرکھتے کیونکہ یہ سادہ ترین منطقی عمل تھا قدیم چینیوں اور یہودیوں کے نزدیک کسی شخص پر جب بدروحیں قبضہ جماتی تو وہ بے حد جوشیلا حدتک سرگرم اور تعلیمات کے برعکس اعمال کرتا، ان کے مطابق خدا کی ناراضگی کی بدولت آسیب ہو جاتا تھا کیونکہ وہ ان لوگوں کی حفاظت نہیں کرتا اورانہیں اور دوسری بری قوتوں سے نہیں بچاسکتا۔اس دور میں آسیب دور کرنے کے لیے عام طورپرجھاڑ کا طریقہ اپنایا جاتا تھا جادو کالا علم دعائیں مانگنا بھیانک آوازمیں شوروغل باربار کرنا بھیڑ بکریوں کی میگنیوں میں شراب ملا کر محلول تیار کرکے پلانا کوڑے لگانا یا بھوکا رکھنا عام تھا ۔اس کے پیچھے منطق یہ تھی کہ جتنا برا سلوک مریض سے کیا جائے گا اتنی ہی جنوں کی بےعزتی ہوگی کیونکہ اس مریض کے روپ میں درحقیقت جنات تمام اعمال کے ذمہ دار ہوتے۔

مریض کو دی جانے والی آزیتیں بھی جن کو ہی ملتیں،اِ سےعلاج کا طریقہ کہہ ڈالا ،یہ فریضہ چینیوں اور یہودیوں کے دور میں طبی معالج سرانجام دیتے تھے۔ جنہیں شمن کہتے تھے، اب آتے ہیں ہم آج کے دور میں جو کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے نظریات یہودیوں مصریوں اور چینیوں سے مختلف ہیں جہاں تک بات ہوتی بھوت، پریت، جنات کی اس پر تو بہت کم مسلمان یقین رکھتے ہیں،لیکن جہاں تک طریقہ علاج ہے تو اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن طریقہ علاج جیسے وہ مریض کو سزائیں دیتے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا ہمارے ہاں آج کل شدت پسندی اور گالی گلوچ کا رواج پا گیا ہے، جب کوئی انسان بداخلاقی پراترتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس سےنظرانداز کیا جائے یا اس کی بات ہی نہ سنی جائے یا اس کی غلط بات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ بدلے میں ہم کیا کرتے ہیں، اس کو گالی گلوچ دینا شروع کر دیتے ہیں اب بات اب آتی ہے ملالہ کی،جب ملالہ کو ایوارڈ ملا توکیا ثبوت تھا ان مسلمانوں کے پاس جنہوں نے اس کو اتنی ہوا دی اور اس سے ایک برینڈ بنا دیا گیا ی۔ا اس نے کیا کیا تھا؟

کیا وہ قرآن و حدیث کا علم رکھتی تھی جو اس کی بات کو اتنی اہمیت دی جاتی ،کوئی ایسا کارنامہ جس پر ایوارڈ دیا جاتا، اگر فرض کریں اس سے گولی لگی بھی تھی تو اور کتنے مسلمان دل میں شہید ہوتے ہیں یا پھر غازی بنتے ہیں اس نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا تھا شدت پسندوں نے اس کو اشتہار بنادیا اور اب اللہ تعالی نے جب اس کی اصلیت کھول کر سامنے لا ہی دی ہے تو اس پر ان لوگوں کو شرمندہ ہونا چاہیے جنہوں نے اس کو اتنا سر پر چڑھا رکھا تھا۔ آج بھی وہی لوگ اس سے گالیاں دے رہے ہیں جو اہمیت دیتے تھے۔ اس کے اعمال و اقوال سب کے سامنے ہیں اس کی باتیں، یا وہ لبرل لوگ جوملالہ کے گیت گاتے تھے آج اس پر گالی گلوچ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے روہوں میں جزبات میں ٹھہرا نہیں تحقیق پسندی نہیں ورنہ یہ سب کچھ پہلے سے ہی نظر آجاتا، آج پھرتاریخ دہرائی جا رہی ہے سوشل میڈیا پر ہر طرف ملالہ ہی ملالہ ہے یہ ہماراکلچر بن چکا ہے کہ جس پر کوئی تنقید ہوتی ہے اس پر سب نے تنقید کرنی ہے جس کی تعریف ہوتی ہے اس کی سب نے تعریف کرنی ہے جو بیان اس نے دیا بہت غلط کیا مسلمان تو کیا کافر بھی اس کے اس اصول پر عمل نہیں کرتے بلکہ انسانیت سے گری ہوئی بات کی،غیر مسلم بھی اپنے مذہب کے مطابق نکاح کرتے ہیں چاہے اسےکوئی بھی نام دیں۔ملالہ کیاہے اس کی حقیقت کیا ہے یہ ایک الگ ٹاپک ہے، لیکن کم از کم وہ لوگ جن کا خیال تھا کہ اس نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہے انہیں تھوڑا سا اپنے عمل پر شرمندہ ضرور ہوناچاہئے۔اورآئیندہ کے لیے بغیرتصدیق کی کسی کواپنا آڈیئل نہیں بنانا چاہئے ۔کبھی اپنے دائمی فادے کے بارے میں بھی سوچ لینا چاہیے۔یہاں بات پھر وہی آجاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اپنی عقل کا استعمال نہیں کرنا.

2 comments on “ملالہ کی حقیقت
Leave a Reply