ایک دانشور کو سُنا وہ فرماتے ہیں کہ بنگلہ دیش اس لیے ترقی کرگیا کہ اس نے اپنے آئین میں لفظ “سیکولر” کا اضافہ کردیا۔ کمال ہے! ۱۹۷۷ سے لے کر ۲۰۱۰ تک بنگلہ دیش سیکولر نہیں تھا۔ ابھی دس سال پہلے ہی سیکولر ہوا اور صرف شروع کے چھہ سال سیکولر تھا۔ اور معاشی ترقی وہ غیر سیکولر زمانے میں بھی کر رہا تھا۔ ضیاء الرحمن جیسے مذہبی قسم کے لیڈر کے دور میں بھی کر رہا تھا۔ مگر ہمارے دانشوروں کے خیال میں لفظ “سیکولر” میں ایک عجیب جادو ہے کہ بس ایک آئین کے کاغذ پر ٹکڑے پر لکھ دو، نا اہل لوگ فرشتہ صفت بن جائیں گے اور فوراََ سے معجزات شروع ہوجائیں گے۔ ایسے جادو کبھی ہوتے دیکھے نہیں گئے۔
اور آپ کے خود سیکولر مفکرین بھی امریکہ جیسے ممالک کی ترقی کا سبب سیکولرزم نہیں، لبرلزم کو بتاتے ہیں۔ لبرلزم میں معاشی طور پر فری مارکٹ (free market) کا تصور ہوتا ہے جو معیشیت کو ان کے خیال میں فائدہ پہچاتا ہے۔ وہ معاشی تناظر میں معیشیت کو لیتے ہیں۔ معیشیت ایک مذہبی مسئلہ ہے ہی نہیں اور اس کا سیکولرزم یا مذہبی ریاست سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں، میں کوئی معیشیت کا ماہر نہیں مگر جتنی کتابیں پڑھی ہیں، اس میں سیکولرزم کو سبب نہیں بتایا گیا، اکثر لبرلزم کو ہی سبب بتایا گیا۔ مگر ہمارے دانشور یا تو خود یہ باتیں نہیں جانتے یا عوام کو بتانا پسند نہیں کرتے۔ کوئی جادو نہیں ہوا کرتے۔
پھر بنگلہ دیش اور ہمارے حالات میں بہت فرق ہے۔ اب ہماری قسمت میں ہے کہ افغانستان بالکل ہمارے قریب واقع ہے۔ اب جب ۲۰۰۱ آیا اور امریکہ نے جنگ کا اعلان کیا، تو پاکستان پر پریشر ڈالا گیا۔ ہم اس چکر میں کم از کم پندرہ سال بُری طرح پھنسے رہے۔ دنیا میں بدنام ہوئے، تجارتی نقصان ہوا اور لوگوں نے پاکستان کا سفر ترک کیا اور بہت کچھ ہوا۔ ہمارے ساتھ بہت کچھ فطرتاََ اور قدرتاََ بھی ناگہانی حادثات ہوئے ہیں۔ ہماری قسمت بھی کچھ خاص اچھی نہیں رہی ہے۔ ۲۰۰۱ سے پہلے انڈیا سے ۱۹۹۹ میں ہماری جنگ ہوچکی تھی۔ اور ۱۹۷۱ میں نقصان ہمیں خوب ہوا تھا جس کو برداشت کرنے اور خود کو دوبارہ سے مستعد کرنے میں کافی وقت لگا۔
اور معیشیت کی خرابی کے اسباب میں یہ بھی ہے کہ ہم معاشی لحاظ سے بالکل محتاج محسوس کرنے کے عادی ہیں۔ ہم لوگ امریکہ سے امداد لیتے ہیں اور خوب قرضے پر چلنا چاہتے ہیں۔ ہماری حکومتوں کی ترجیحات یہی ہیں۔ خود مختاری اس طرح پیدا ہو ہی نہیں سکتی ہے اور جب تک خود مختاری پیدا نہیں ہوگی، تبدیلی آنا شروع ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ اور پھر جنگوں سے نکلنا بہت ضروری ہے۔ جنگوں میں رہنے سے معیشیت کو نقصان ہی ہوگا۔ جب تک جنگوں سے نکل کر آپ واقعی معیشیت پر توجہ دینا شروع نہیں کرتے، کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کے تجزیے ہوں تو معقول لگتے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کے دانشور بھی کرامت سُنانے کے خواہاں رہتے ہیں اور ان کے خیال میں ایک کاغذ کے ٹکڑے پر ایک لفظ کے اضافے سے جادو ہوجایا کرتا ہے
Thursday 7th November 2024 10:10 am