جب سے انسان نے اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے بہت سے مشکلات اور مصائب درپیش آ ئے ہیں انسان کو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اپنی مشکلات کے حل بھی نکالتا گیا یہ ان لوگوں کی بات ہو رہی ہے جنہونے اپنی مشکلات کے حل نکالے اور اپنی ناقامیوں کو کامیابیوں میں بدل کر ترقی یافتہ اقوام اپنا نام لکھوایا۔
اب بات کرتے ہیں اپنی مطلب جنوبی ایشیا والوں کی جنوبی ایشیا میں زیادہ تر ممالک ترقی پذیر ہیں یا کچھ ممالک ابھی اپنے آپ کو صیح راستے پر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری اپنی کچھ ایسی کوتائیاں ہیں جن کی وجہ سے اب ہمیں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
مثًلا ہم اپنے پاکستان کی ہی مثال لے لیں ان 73 سالوں میں ہم سب نے امیر غریب رھیڑی والے نے یا کسی رئیس نے حکمران ہو یا نوکر سب نے جہاں تک بس چل سکتا تھا اس ملک کو لوٹا جس کو جہاں موقع ملا اس ملک کو گدِ کی طرح نوچتا رہا اور اپنا پیٹ بھرتا رہا۔
ہمارے ایوانِ بالا سے لے کر ایک چپڑاسی تک سب چور ہیں اور موقعے کی تلاش میں رهتے ہیں اپنے اندر کے نیچ پن کو دکھانے کے لیا ایسا کیوں ہے آخر ہمارا ضمیر اسی کسے مر سکتا ہے؟
دراصل ہم اپنے اقدار اپنی روايات اپنی تعلیمات اپنے مذھب کو بھول چکے ہیں جو ہمیں اپنانا تھا وہ غیر مسّلم نے اپنا لیا اور ہم بےحیائی اور بے ضمیری کو اپنے اقدار سمجھ کر چلتے رہے۔
ہم نے چوروں کو اپنا حکمران بنا لیا اور اپنا نصیب اپنا مقدر اپنی اور اپنے ملک کی عزت انکے حوالے کر دی ایک پلیٹ بریانی اور قیمہ والے نان کے پیچھے اپنی نسلیں برباد کر دیں اور بیچ دی اور اپنے چور ڈاکو لیڈروں کے پیچھے کچھ اچھا برا سوچے جانے بغیر جیئے جیئے ہمارا لیڈر کہتے رہے اور اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو تاریک کرتے گئے۔
سوچئے ہم کیسے کامیاب ہوتے کیسے عظیم قوم بنتے جو قوم ایک وقت کا کھانا بھی بھیک کا کھائے وہ قوم پھر کبھی حکمران پیدا نہیں کر سکتی۔
جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلتے اور اپنے اصلی رہبر کو نہیں پہچاں لیتے کوہی ہماری تقدیر نہیں بدل سکتا خدا ہم سبکا حامی ناصر ہو۔
جس دیس کے کوچے کوچے میں افلاس آوارا پھرتا ہو
جو دھرتی بھوک اُگلتی ہو دکھ درد فلک سے گرتا ہو
رائیٹر::ملک جوہر