25 دسمبر 2020
پاک_استان
اے قائد اعظم ترا احسان ہے احسان ۔۔۔
آج بابائے قوم کا جنم دن ہے، وہ ہستی جنہوں نے پاکستان بنایا لیکن آج ان کی روح کو سکون ہو گا کیا؟
ہم میں سے ہر شخص نے حسب توفیق ان کے نام کو داغدار کیا، ہم نے ان کے اقوال کی پاسداری صرف سننے اور کہنے کی حد تک کی ، ہم سے جہاں تک ممکن ہوا ہم نےلوٹا، وہ ملک جس کے لیے ہمارے رہنماوں نے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں، وہ پودا جس کی آبیاری اپنے خون سے کی آج وہی پودا تن آور درخت بنا تو ہم نے کاٹ ڈالا، ملک کے حصول کے لیے جس جس نے قربانیاں دیں وہ رائیگاں تو نیں تھیں، ملک کے حصول کے لیے رہنماوں نے اور ملک حاصل ہونے کے بعد مہاجرین نےبہت بڑی قربانیاں دیں ،
آج وہ ملک جو ایک ہی سوچ پہ بنا ، “پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ” لیکن اب “پاکستان کا مطلب کیا جو کج لبھدا جیب اچ پا” آج جھوٹ، لالچ،دھوکہ،فریب، نسلی فساد، جاگیردارانہ نظام، منفی سوچ، انتقامی سیاست،فرقہ واریت، لاقانونیت، چھوٹے بڑے کے مختلف قوانین، لانگ ٹرم پالیسیز کا نہ ہونا، حتی کہ ایک ریڑھی والے سے لے کر حاکم تک سب نے ملک کی جڑیں کمزور کیں، وہ پاکستان جو بہت سی جانوں کی قربانی کے بعد اور انتھک کوشش و محنت سے حاصل ہوا آج ہم خود اس ملک میں رہ کر لفظ پاکستان ایک بےگانہ ملک کے نام سے پکارتے ہیں، وجہ ہم خود ہیں، دوسروں پہ الزام تراشی، آنے والی حکومتوں سے جھوٹی امیدیں، کچھ نہ کرکے ملک کو سنوانے کی صرف باتیں، اپنے ہیروز کو ہم نے بھلا دیا، آج ہماری منازل ایک ٹک ٹاک اکاونٹ سے یوٹیوب چینل تک اور زیادہ سے زیادہ یورپ میں داخلہ تک محدود ہو گئیں ، داخلہ چاہے ملک کو بدنام کر کے ہی کیوں نہ ہو،
#لاالہ کی بنیاد والے غیرملکی شہریت کے حصول کے لیے ہزار جتن کرتے ہوئے ایک دفع غیر مسلم بن جاتے ہیں اپنے لالچ کے حصول کے لیے، ایک ریڑھی والا کم ناپ تول میں کمی کرتا ہے، ایک پڑھا لکھا سرکاری افسر رشوت سے پیٹ میں آگ بھرتا ہے، ایک لکھاری روپوں کی تجوریوں کی کشش سے لکھتا ہےاور تو اور ہم اتنی فرض شناس قوم ہیں کہ کوئی بھی سرکاری کام، سرکاری روپیہ، سرکاری املاک ان سب کو ہم اس لیے نقصان پہنچاتے ہیں کہ یہ سرکاری مال ہے، اگر میں تلخ لہجے میں کہوں کہ “حرام دا مال” سمجھ کر جس طرح اک فحاشہ کسی بچے کو پھینک دیتی ہے آج ہمارا حال اس سے بھی بدتر ہے ، دھوکہ دینے میں ہم ماہر ہیں، کام چوری ہمارا شیوہ ہے ، دوسرے سے ہاتھ صرف اس کی حثیت کے مطابق ملایا جاتاہے، روپیہ پیسہ کی نمائش کرتے ہوئے ہم فخر محسوس کرتے ہیں، فرقہ واریت کی آگ میں جلتے ہوئے ہم ایک مسلمان پہ کافر کا فتوی لگا دیتے ہیں، آج ہم ہر معاملے میں چین کی مثالیں دیتے ہیں لیکن یہ ہم نے کبھی سوچا کہ اک سوئی تک ہم چائنہ سے منگوا رہے ہیں، ان کی اک سمت متعین ہے، ان کے پاس ٹارگٹس ہیں، وہ محنتی لوگ ہیں، ان کے پاس اک سوچ ہے، ایک منزل ہے اور سب سے بڑی بات ایک پلان ہے جس پہ آنے والی حکومتیں کام کرتی ہیں جبکہ ہمارے پاس معاملہ برعکس ہے ، ہماری ترجیحات میں جب ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہوگا تب یہ ملک بھی بدلےگا، سوچ بدلے گی تو ملک بدلے گا، باتوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا بہت مختلف ہے، کچھ کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے ، جو مر گئے وہ آج زندہ اس لیے ہیں کہ انہوں نے قوم کے لیے کچھ کیا
” زندہ رہتے ہیں مرنے والے
مر جاتے ہیں زندہ لوگ “
جینے کے لیے مرنا پڑتا ہے، اور مرنے کے لیے ہم دنیاداری کی جائیدادوں کے پیچھے بھاگ نکلے جنہیں ہم یہاں ہی رکھ کر چلے جائیں گے، کچھ ایسا ضرور کرنا چائیے جس سے آپ ہمیشہ زندہ رہ سکیں، مرے کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ابراہم لنکن بننا پڑےگا ، ہم کچھ بھی نہ بنیں مگر اتنا تو ضرور بنیں کہ ہم انسان بن جائیں،میرا ملک غریب ملک نہیں ہے، یہاں کی آب وہوا، یہاں کے موسم، یہاں کی خوبصورتی اللہ تعالی نے کسی دوسرے ملک کو عطا نہیں کی اللہ تعالی فرماتا ہے “سیروفی الارض” سیر کرو دنیا کی۔
باہر نکل کر تو دیکھو اس ملک کو اللہ نے کیا کچھ عطا نہیں کیا، میرا یہ ماننا ہے کہ اگر آج اس ملک اور شہریوں کی ایک ہی سمت متعین ہوجائے، آنے والی حکومتیں ایک ہی پالیسی لے کر آگے بڑھیں ، فرض شناسی ہمارا شیوہ بن جائے، ذاتی مفاد پہ ملکی مفاد کو ترجیحی دی جائے، سرکاری مال کو گھر کا مال سمجھا جائے، ڈنڈی نہ ماری جائے، دوسروں کے حقوق کا خیال کیا جائے تو یہ ملک وہ ملک بن سکتا ہے جس کا خواب علامہ محمد اقبال رح نے دیکھا اور قائد نے اسے پورا کیا۔۔۔آخر میں دعا ہے اللہ تعالی میرے ملک کو ہمیشہ قائم دائم رکھے۔ آمین
ازقلم عصمت جاوید