خدا کی قسم یہ وہ شِکوہ ہے جو ہر دعا میں دردناک الفاظ کی شکل اختیار کرکے غریب، یتیم اور بے سہارا بچوں کی دل سے نکلتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو بھیک مانگتے معصوم بچے کو دھکا دینے سے ہمیں سُنائی دیتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی غریب اور یتیم کے ہاں فاقوں والی راتوں میں سات آسمانوں میں گونجتی ہیں۔
اس کے ذمیندار وہ ہیں جِن کے گھر عید والے دنوں میں ہر قسم کے مزیدار کھانوں سے لیکر خاندان کے ہر فرد کے لیے اُن کے پسند کے مطابق کپڑوں تک کی آسائشیں میسّر ہوتی ہیں۔ لیکن کیا کبھی اپنے امیری کے نشے میں لت پت دماغ پر زور دیکر سوچا کہ جب ایسی پُر مسرّت اور خوشی والے دنوں میں بھی اگر غریب اور یتیموں کے گھر میں چُولھا نہ جلے تو کیا قیامت خیز منظر ہوگی۔ ویسے تو انکے باقی خواھشات مرے ہوئے ہوتے ہیں مگر دل میں اتنی سی آرزو ضرور ہوتی ہے کہ کم سے کم ایسے دنوں (عید والے دن) میں جسم کو ڈھانپنے اور اور پیٹ میں کُچھ ضرور ہو۔ تاکہ انکو بھی یہ احساس ہو کے ہم بھی اسی دنیا کے فرد سمجھے جاتے ہیں۔ ورنہ اگر آپ خود کو ترجیع دیکر عید مناتے ہیں تو یہ عید آپکی اللّٰه کی دربار میں شاید ہی قبول ہو۔ کیونکہ اصل عید تو وہ ہے جب غریب اور یتیم آپکے ساتھ کندھے پہ کندھا ملاکے صف میں کھڑے ہوں۔
غریبی اور یتیمی کا وقت پوچھ یا بتاکر نیہں آتے بلکہ یہ کبھی بھی کسی کا مقدر بن سکتے ہیں۔ جب کسی کاوئی سہارہ دینے والا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کی خواہش بھی۔دبکر رہ۔ جاتی ہیں کیونکہ اسکی خواہشیں پوری کرنے والا اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے جو ایک مشہور کہاوت ہے کہ اگر باپ نہیں تو خاک ہے یہ دنیا۔خدارا ذرا سوچیے کہ اگر کوئی مزدور جب شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹے گا تو اسکی راہ تکتے معصوم بچے جب کچھ کھانے کے لیے مانگیں گے تو اس کے پاس کیا جواب ہوگا۔ اور ایسی ہی تنگ صرتحال جب کسی بدقسمت کے ہاں پیدا بھی ہوجاتی ہے تو کئی لوگ ایسے سوال کرتے معصوم چہروں کی جان لیکر بعد میں اپنی زندگی کے دیعے کو بھی بُجھا دیتے ہیں۔ تو خدارا آگے بڑھیے اور کئی اجڑتے گھروں کو اپنی ذمینداری سمجھ کر تھوڑا سا اپنا حصہ ڈالیے اور غریب اور یتیم کے ہر گزرتے دن کو عید کا دن بنائیں
طارق امتیاز لغاری
خیرپور میرس