برصغیر میں مسلم معاشرے کا آغاز تو مسلمانوں کی فتوحات کے نتیجے میں میں ہوا لیکن اس کے علیحدہ تشخص کو برقرار رکھنے میں علماء اور صوفیاء نے تاریخ کے مختلف ادوار میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔بڑے شہروں میں جہاں مسلمان اکابرین اور زعماء رہتے تھے وہاں علماء نے دین کی نگہبانی کا حق ادا کیا جبکہ دور دراز اور غیر معروف علاقوں میں صوفیاء کرام نے نہایت موثر انداز میں دین اسلام کی تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔
لوگوں کو دین کی طرف مائل کرنے کے ضمن میں دو اہم عوامل نے ان عظیم ہستیوں کی مدد کی اول ذات پات کا ظالمانہ نظام جو مسلمانوں کی فتوحات سے پہلے یہاں سختی سے رائج تھا۔دوم ان بزرگوں کی سادہ نیک اور قابل تقلید زندگی۔ ذات پات کے غیر منصفانہ نظام نے ہندؤں کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ طبقات میں تقسیم کردیا تھا جس سے ان کے اعلیٰ طبقے برہمنوں اور کھشتریوں نے تمام مراعات پر اپنی اجارہ داری قائم کرلی تھی۔ اور عوام کی اکثریت کو ادنی حیثیت دی تھی۔ ان لاکھوں مصیبت زدہ انسانوں کے لئے دین اسلام امید کا ایک پیغام لے کر آیا
اور یہ پیغام انسانوں کی مکمل مساوات کا پیغام تھا جو صوفیاء کرام کی بدولت برصغیر میں پھیلا اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ مسلم معاشرے کی تشکیل میں صوفیاء کرام کا اہم اور بنیادی کردار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔