مولانہ طارق جمیل برانڈ اور ناڑاجو کہ آجکل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے.آئیے جانتے ہیں اس ناڑے کی حقیقت کیا ہے؟کیا سچ میں یہ ناڑا 550 روپے کا ہے؟ہماری زندگی دو چیزوں کے ارد گرد گھومتی ہے ایک کو ہم تعیشات کہتے ہیں اور دوسری کو ضروریات .ضرورت کی چیزوں کے معاملے میں ریاست کی تاجروں کی اور ملک کےحکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی پہنچ میں رکھیں. ذخیراندوزی سے محفوظ کریں. اور لوگوں کی ان تک دسترس کو آسان بنائیں. قیمت ایسی ہو جو ہر کسی کی پہنچ میں ہو .
لیکن جب ہم لوگ تعیشات کی بات کرتے ہیں تو قیمتوں کا کنٹرول اور توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے. کیونکہ اس میں آپ کو ایک کوالٹی مہیا کی جاتی ہے تو مہیا کرنے والے کی مرضی پر انحصار ہے کہ وہ کس قیمت کا مطالبہ کرتا ہے؟ کپڑے کی ایک قسم ایسی ہو سکتی ہے جو بہت سستی ہو. جبکہ دوسری طرف ایک ایسا کپڑا بھی ہوسکتا ہے جو بہتر معیار کی وجہ مہنگا ہو. جہاں تک بات مولانا طارق جمیل کے برانڈ اور ان کے ناڑے کی ہے تو ایسی کوئی پروڈکٹ مولانا طارق جمیل کی طرف سےلانچ نہیں کی گئی نہ ہی ان کے سٹور میں موجود ہےجسے سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے. زنانہ تھری پیس سوٹ کی قیمت 2990 روپے ہے جبکہ مردانہ سوٹ کی قیمت 2490 روپے ہے .آجکل عید کی آمد کی وجہ ساے 20% ڈسکاؤنٹ دیا جا رہا ہے جس سے قیمتیں مزید کم ہو گئی ہیں. بہت سے لوگوں نے مولانا طارق جمیل کے کپڑوں کے برانڈ کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے – اور کہا کہ مولانا طارق جمیل کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے جو انہوں نے کپڑوں کا ایک برانڈ لانچ کر دیا. جبکہ حقیقت کچھ اور ہے.
ہمارے معاشرے میں نامور فنکاروں ،اداکاروں ، سیاسی اور اسلامی شخصیات کے نام کو استعمال کرتے ہوئے بہت سے لوگ انویسٹمنٹ کرتے ہیں. اور اپنا کاروبار چلاتے ہیں. اس طرح سے مارکیٹنگ آسان ہوتی ہے .اور انویسٹر کیلئے کافی زیادہ چانسز بن جاتے ہیں کہ وہ منافع آسانی سے کما سکیں.مولانہ طارق جمیل ایک ایسے عالم ہیں جو ہمیشہ انسانیت کی خدمت کی بات کرتے ہیں. لوگوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں .اگر مولانا طارق جمیل صاحب اپنے کپڑوں کے اس براند کو کسی اچھے مقصدیا کسی خدمت کے جذبے کے تحت چلاناچاہ رہے ہیں تو ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے .اور تعاون کرنا چاہیے .مولانا طارق جمیل صاحب اس کی تائید کر چکے ہیں کہ وہ یہ پیسہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں گے. لہذا انہیں مکمل تعاون اور اپنائیت کا احساس دیا جائے.