السلام علیکم آج کا میرا مضمون ایک نہایت دلچسپ یا تو یوں کہ لیں ایک عجیب و غریب واقعہ کے بارے میں ہے جو کہ دنیا کے ایک عظیم ترین سائنس دانوں میں شامل ہونے والا نام آئن سٹائن کے بارے میں ہے آئن سٹائن کو عظیم ترین سائنس دانوں میں شامل کیا جاتا ہے جس کی کاوشوں سے آج ہم سائنس کے میدانوں میں انسانی عظمت کے گاڑھے ہوئے جھنڈوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی سائنسی علوم میں دلچسپی رکھتا ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی پڑھا لکھا شخص اس نام سے نا واقف نہیں جس کی وجہ اس کی وہ سائنسی تحقیقات ہیں جنہوں نے اسے علم کی دنیا میں ایک معتبر اور باوقار پہچان دی ۔ مگر ہمارا موضوع اس کی جدوجہد اور کامیابیوں یو یو کی داستان نہیں بلکہ آج ہم آج اس بات کو اپنا موضوع سخن بنائیں گے گے کہ آخر کار اس کے دماغ کو نکال کر کیا سراغ لگانے کی کوشش کی گی۔ ہ 17 اپریل 1955ء کا واقعہ ہے جب اس عظیم سائنسدان کو سینے میں شدید درد کا احساس ہوا جس کے علاج کے لیے اسے امریکہ کے نیو جرسی پرنسٹن جن سن ہاسپٹل میں داخل کروانا پڑا لیکن وہ دل کہ اس مرض سے جانبر نہ ہو سکا کا اور اگلی صبح اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس وقت اس کی عمر تقریبا 76 برس تھی۔ آئنسٹائن کی موت دنیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سائنس کی دنیا میں صف ماتم بچھ گئی۔ WWW.NEWSFLEX.COM
آئن سٹائن کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کے دماغ یا اس کی جسم کے حصے کو کو پڑھا جائے کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ ا اس کی پوجا کریں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کے دماغ کو پڑھ کر لوگ اسے ای الگ نظر سے دیکھنے لگ جائیں گے۔ اس موقع پر اس کی میت کی نگرانی جس ڈاکٹر کی ذمہ داری تھی اس کا نام ڈاکٹرتھامسن بتایا جاتا ہے جس نے آئن سٹائن کی موت کے بعد ایک عجیب و غریب فیصلہ کرتے ہوئے اس سائنسدان کا دماغ چرانے کا قدم اٹھایا۔ جس کے لیے نہ ہی تو اس نے آئن سٹائن این کے اہل خانہ سے کوئی اجازت لی بے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی ضروری قانونی کارروائی پوری کی ۔ ڈاکٹر تھامس کا یہ دعوی بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسے اس کام کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو اس چیز کی ذمہ داری دی گئی تھی کہ آئن سٹائن کا دماغ نکال کر کر اس پر تحقیق کی جائے کہ اس میں آخر کونسی غیر معمولی بات تھی۔ جبکہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ڈاکٹر تھامس دماغی امراض کا ماہر بھی نہیں تھا۔ اس نے آئن سٹائن این کے سر سے دماغ نکال کر اس کا وزن کیا پیمائش کی اور اس کو ایک جار میں بند کر کے رکھ دیا۔ یہ شاید دنیا کا واحد طبیعت قدام تھا جو آئنسٹائن کے مردہ جسم کے ساتھ اٹھایا گیا۔ اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عمل کے بعد وہ آئن سٹائن کے بیٹے کے پاس گیا اور اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کے باپ کے دماغ پر سائنسی تحقیق ضروری ہے۔ سو وہ اس عمل کی اجازت دے دے تحقیق کی اجازت دے دی جبکہ ڈاکٹر تھامسن آئن سٹائن کا دماغ پہلے ہی نکال کر اپنے گھر میں منتقل کر چکا تھا۔
ڈاکٹر تھامس آئنسٹائن کے دماغ کو لے کر اس شہر سے غائب ہوگیا اور اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر اس کے دماغ پر تحقیق کرنے لگا اور وعدے کے مطابق اس نے آئن سٹائن کے فیملی ڈاکٹر کو بھی اس کے دماغ کا کچھ حصہ دیا اور اور اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر اس کے دماغ پر تحقیق کی جبکہ وہ اس شعبے سے تعلق بھی نہیں رکھتا تھا۔ اور اپنی عمر کے آخری حصے میں اس نے آئن سٹائن کی پوتی کو اس کا دماغ دکھایا اور کہا کہ اس نے اس کے دماغ میں کوئی ایسی دلچسپ بات نہیں دیکھی اور ڈاکٹر تھامس کی موت کے بعد آئین سٹائن کے دماغ کے حصے مختلف سائنسدانوں کے پاس چلے گئے اور مختلف قسم کی ریسرچز اس پر ہوئی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ڈاکٹر جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا اس نے آئن سٹائن کا دماغ چرا کر اس پر تحقیق کرنے کی کوشش کیوں کی۔
! شکریہ