“بسم الله الرحمن الرحيم”
(قرآن کریم)(نور_ ہدایت_روشنی)
قرآن کیا ہے؟ اور ہم اسے کیا سمجھتے ہیں؟ قرآن جس اہمیت کا متحمل ہے کیاہم اسے وہ اہمیت دیتے ہیں؟آیے مختصر نظر ڈالتے ہیں۔قرآن کریم پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کے اندر ان باتوں کا یقین محکم ہو کہ:٭قرآن کریم اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابوں میں سے آخری کتاب ہے ۔
٭جو ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجبرائیل عہ کے ذریعے نازل کی گئی ۔٭چودہ سو سال پہلے جس طرح تھی آج بھی اسی حالت میں موجود ہے اور رہتی دنیا تک یوں ہی رہے گی۔اس میں ایک لفظ کابھی ردوبدل نہیں ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔
٭اللہ تعالی بذات خود اس کی حفاظت فرمارہے ہیں۔
٭یہ کتاب ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ بن کر آئی ہے۔
٭اس کو پڑھنے اور سمجھنے کا علم حاصل کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔
٭ کتاب پرعمل کرتے ہی اس کی برکات و ثمرات زندگیوں میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتےہیں۔
٭اس کتاب پر عمل ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ ٭صرف یہی کتاب ہمارے آخری سفرمیں ہماری ساتھی ہوگی۔ ٭آخرت میں یہ کتاب یا تو ہمارے حق میں
حجت بنے گی یا ہمارے خلاف۔اتنے مضبوط ایمان کے ساتھ جب ایک مسلمان قرآن پڑھنا چاہتا ہے تو اس کتاب کو ہاتھ میں اٹھاتے ہی اس کا رعب و احترام اور محبت کا جذبہ دل میں گھر کرلیتا ہے اور جب وہ اس کو کھول کر پڑھتا ہے تو سرسری انداز میں نہیں بلکہ طلب ہدایت کے لیے ، اپنی آخرت سوارنے کے لیے۔ورنہ اگر جیسے کوئی شخص بیمار ہو وہ طب کی کوئی کتاب لے کر بیٹھ جائے
اور یہ خیال کرے کہ محض کتاب پڑھنے سے اس کی بیماری دور ہوجائے گی. تو ایسےشخص کو کوئی ذی شعور نہیں کہے گا۔بلکل اسی طرح ہمارا رویہ قرآن کریم کے ساتھ ہے. ہم اس قرآن کو اس خیال سے پڑھتے ہیں کہ اس کا صرف پڑھ لینا ہیکافی ہے. اور اس کے پڑھنے سے ہی ہماری تمام پریشانیاں اور روحانی امراض کا خاتمہ ہوجائے گا .,اسکو سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں ,جو
کہ بہت غلط سوچ ہے۔اگر ہمارے پاس کوئی ایسا خط آتا ہے جس کی زبان سے ہم ناواقف ہوں تو لازما ہماری فطرت یہ تقاضہ کرے گی کہ اس کا ترجمہ کروا کر یہ جاننے کی کوششکہ اس میں کیا لکھا ہے؟ اور ہم اس بات کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔یہ رویہ ہوگا ہمارا ایک معمولی خط کے ساتھ۔مگر اللہ تعالی کا جو پیغام ہمارے پاس آیا ہوا ہے جس میں ہمارے لیے دین و دنیا کے تمام فائدے موجود ہیں،اس کو جاننے ،سمجھنے کےلیے ہمیں کوئی فکر ،کوئی بے چینی لاحق نہیں ہوتی ؟سوچنے کا مقام ہے۔
قرآن تو سراسر خیر ہ۔اسے اگر ہم جن بھوت بھگانے کے لیے کے لیے، تعویذ گنڈوں کے لیے، بیماریوں کے علاج کے لیے اور روزی میں برکت جیسی حقیر و بے حقیقت چیزوں کے لئے پڑھیں گے.تو یہی ہمیں ملیں گی اور اگر ہدایت کے لیے اور جنت کے حصول کے لیے پڑھیں گے. تو یہ بھی اللہ تعالی کی رحمت سےعین ممکن ہے۔یہ ہماراظرف ہے کہ ہم اللہ تعالی سے کیا مانگتے ہیں؟مسلمانوں نے جب بھی اس کتاب سے رشتہ جوڑا وہ دنیا میں معزز،سربلند،اور خوشحال ہوئے اور جب اسے صرف پڑھنے کی حد تک محدود کردیا تو ذلت و پسماندگی،حقارت و بے عزتی مقدر بنی۔
( جیسا کہ ابھی موجودہ دور میں ہو رہا ہےآج ہمارے پاس وہی قرآن ہے۔اس کے لاکھوں نسخے گردش میں ہیں گھروں اور مسجدوں میں اس کی صبح شام تلاوت کی جاتی ہے لیکن ہماری آنکھیں خشک رہتیہیں،دلوں پر اثر نہیں ہوتا، زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔کیوں؟آپ کی زندگی کا کوئی تجربہ،قرآن کریم پڑھنے کے تجربے سے زیادہ پر مسرت،عظیم،نفع بخش اور بابرکت نہیں ہوسکتا۔قرآن میں آپ کو علم و دانش کے ناقابلبیان خزانوں کا ایک جہان ملے گا جو زندگی کی شاہرہ پر آپ کی رہنمائی کرے گا۔
آیات کا نور آپ کو لاعلمی کے اندھیروں سے نکال کر آپ کی روح کی گہرائیوں تک کو منور کردے گا۔قرآن سے آپ ایسی جزباتی وابستگی محسوس کریںگے جو آپ کے سخت دل کو پگھلا دے گی .اور بے اختیار اللہ تعالی کی محبت میں آپ کے آنسو بہنے لگیں گے۔اب اگلے قدم پر قرآن آپ سے تقاضہ کرے گا. کہآپ اللہ تعالی ہی کہ ہو جائیں اور اس قدم پر قرآن کا یہ تقاضہ آپ کے اپنے دل کی آواز ثابت ہوگا. اور آپ اپنی آزاد مرضی اور اللہ تعالی کی محبت میں سرشارہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالی کے قدموں میں دے دیں .گے
۔یاد رکھیں کہ اس دنیا میں شرو باطل قوتوں کے مقابلے کے لیے اور اپنے خوف و پریشانیوں کو قابو کرنے کے لیے یہی واحد ذریعہ ہے۔قرآن مجید سے آپ کواپنے دن اور رات کے مسائل کے حل بھی ملیں گے. اور ڈپریشن اور مشکلات میں یہ کلام آپ کو .قلبی اور روحانی سکون بھی عطا کرے گا۔ذرا سوچئے ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے اس دنیاۓ فانی میں 70،80 سال گزارے مگر یہ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ قرآن میں ہمارا رب ہمسے کیا تقاضہ کر رہا ہے.
اور اسی محرومی کے ساتھ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کی زندگیاں قرآن کے نور سے خالی رہیں،ان کی ذات قرآن کے احکامات سےبےخبر رہیں. انکے دل قرآن کی طرف مائل نہیں ہوئے. وہ اب اللہ تعالی کو کیا جواب دیں گے؟
دراصل ہماری مثال اس شاگرد کی سی ہے. جسے نہ تو پڑھائی سے دلچسپی ہے اور نہ ہی امتحان کا کوئی خوف. لیکن اس بات کا .پختہ یقین ہے کہ امتحان میں میں کامیابی ضرور ملے گی .تو جو نتیجہ اس شاگرد کو بھگتنا پڑے گا وہی حال ہمارا بھی ہو سکتا ہے اگر ہم نے اپنی زندگیوں میں قرآن کو اہمیت نہ دی۔انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں کہ اللہ تعالی اسے اپنے کلام کے ذریعے ہدایت اور رہنمائی اور ایمان کی دولت سے نواز دے۔قرآن ایسی لازوالنعمت ہے. جس کی ابدی حلاوت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے ذریعے اپنے پیارے رب کو جاننا چاہے۔””
“بیشک”